کشمیر کا نایاب تمدنی میراث ’میراث محل ‘میں محفوظ

سرینگر /کشمیر نیوز بیورو /کشمیر کی تمدنی وراثت کو محفوظ کرنے کےلئے 2001 میں سوپور سے تعلق رکھنے والی معروف تعلیمی ماہر اورسماجی کارکن عطیقہ بانو نے اپنی مثبت اور بے لوث کاوشوں کا آغاز کیا۔ انہوں نے سوپور میں ہی چنکی پورہ کے مقام پر زاتی طور ایک میوزیم کی داغ بیل ڈال دی اور آج عطیقہ جی کے فوت ہونے کے باوجود یہ میوزیم اپنی طرح کا واحد میوزیم ہے جہاں کشمیری تمدن سے وابستہ سینکڈوں نایاب چیزیں موجود ہیں۔ اس میوزیم میں نایاب اور قدیم چیزیں ہونے کی وجہ سے یہ عوام کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے.خصوصاً ا ±ن لوگوں کا جو اپنی تہزیبی اور تمدنی وراثت کو محفوظ رکھنے کے حوالے کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ‘ میراث محل ‘ کو 2011 عیسوی میں عطیقہ بانو جنہیں عرف عام میں ‘ بہن جی ‘ کہتے تھے, نے زاتی طور پر اور اپنی کاوشوں سے منصہ شہود پر لایا تاکہ کشمیر کی تمدنی وراثت کو محفوظ کیا جائے.2010 ئ میں سرکاری نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے نہایت ہی لگن اور تندہی سے کام لے کر گاو ¿ں گاو ¿ں اور قریہ قریہ کا سفر کیا اور کشمیر کی تمدنی وراثت سے ج ±ڑی ہر چیز کو مختلف لوگوں سے جمع کرنا شروع کیا اور اب اس میراث محل میں 3000 سے بھی زیادہ انمول اور نایاب چیزیں موجودہ ہیں. اس میراث محل میں قدیم زیورات, پیپر ماشی سے بنی نایاب چیزیں, روایتی کشمیری لباس اور روایتی برتن موجودہ ہیں۔ اس میوزیم میں نایاب مذہبی قلمی نسخے, مذہبی کتابیں, شاعری کے کلیات,بھی ہیں۔ اس کے علاوہ فارسی،سنسکرت،کشمیری اور اردو میں لکھے مخطوطات بھی شامل ہیں۔کشمیر کے نامور اریبوں اور شاعروں کی نایاب تصاویر بھی مرحومہ عطیقہ جی نے محنت شاقہ سے دستیاب کرکے یہاں رکھی ہیں.اس کے علاوہ قدیم کپڑے اور زیورات بھی نہایت ہی محنت سے لائے گئے ہیں. کئی پرانے اخبارات کی کاپیاں بھی میراث محل میں دستیاب ہیں۔عطیقہ بانو ایک سماجی ورکر بھی تھیں اور ستم زدہ عورتوں کے لئے انہوں نے کافی کام کیا ہے. انہوں نے 4اکتوبر 2017 میں انتقال کیا. انہوں نے کشمیری تمدن و ثقافت کی آبیاری کے لئے انتھک جدوجہد کی۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.