جموں کشمیر میں دینی مدارس کو جدید علمی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی اشدضرورت

کئی مدارس میں قرآن اور حدیث پر مبنی اسلامی تعلیمات کا چلن نہیں ہے بلکہ مدرسے کی انتظامیہ کے مسلک پر مبنی
سرینگر کشمیر نیوز بیورو ” مدرسہ “ لفظ کا تعلق ایک مخصوص مذہب سے ُجڑا ہوا ہے اور عام طور پر اس معنی میں لیا جاتاہے جہاں اسلامی علوم بحیثیت نصاب پڑھایا جاتا ہو۔حالانکہ یہ لازمی نہیں ہے کہ اس مدرسہ میں صرف اسلامی علوم ہی پڑھائے جاتے ہوں۔کئی ممالک میں ان مدرسوں میں صرف مسلمان ہی زیر تعلیم نہیں ہیں کیونکہ ان مدارس کے نصاب میں جدید علوم وفنون بھی شامل ہیں۔کشمیر نیوز بیورو کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں مدارس نے تعلیمی میدان میں ایک اہم رول ادا کیا ہے لیکن وقت کے تقاضے کے مطابق ان مدارس میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ مذہب کی صحیح اور مثبت طور ترجمانی و عکاسی ہو جائے اور ان مدارس کے ذریعے عالمی سطح پر آپسی بھائی چارے کا پیغام سامنے آئے۔اس کے علاوہ تعمیری و ترقی طور بھی ایک بیدار ذہن طالب علم سامنے آئے۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری ریاستی سرکار کو اس بات کی کوئی واقفیت نہیں ہے کہ ہماری ریاست میں کتنے مدارس کام کرتے ہیں؟اور اس حوالے سرکار کی طرف سے کبھی صحیح جواب سامنے نہیںآیا ہے۔معروف ادیب اور سماجی کارکن مشتاق الحق احمد سکندر، جنہوں نے حال ہی میں ’ Bridging the Divide : Call for a new Dawn نامی کتاب تصنیف کی ہے، نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدرسوں میں نصاب کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت کے ساتھ ساتھ وہاں کی انتظامیہ میں بھی تبدیلی لازمی ہے۔کئی مدررسے انفرادی طور پر بھی چلائے جاتے ہیں اور اس کا مقصد تجارت کے سوا کچھ نہیںہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان مدرسوں کا نصاب متروک کرنے کا متقاضی ہے کیونکہ یہ مغل دور کے آفیسروں کے لئے درس نظامی تھا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ کئی مدارس میں قرآن اور حدیث پر مبنی اسلامی تعلیمات کا چلن نہیں ہے بلکہ مدرسے کی انتظامیہ کے مسلک پر مبنی تعلیمات دی جاتی ہے۔ جہاں طالب علموں کو اسلام نہیں بلکہ مخصوص مسلک کے عین مطابق وعظ و تبلیغ کی تربیت دی جاتی ہے۔ایک سکالر خالد حسین کے مطابق ان مدارس کے نصاب میں سیکیولر تعلیمات بھی شامل کرنی چاہئے یہاں تک کہ ان مدارس کے طلباءمیں سائنسی علوم کا بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ شہر خاص میں چلائے جارہے مکتبہ ¿ محمد بن قاسم کے استاد کا کہنا ہے کہ مدارس میں جدید سائنسی علوم کا احیا ¿ لازمی ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کی ان مدارس میں غریب گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جو شاید صرف لباس اور غذا حاصل کرنے کے واسطے ان مدارس میں داخلہ لیتے ہیں۔عام رائے یہی ہے کی ان مدارس کو جدید طرز پر تبدیل کیا جائے تاکہ یہاں سے ایک بہتر پود سامنے نکل آئے۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.