جموں میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف بجرنگ دل کا احتجاج

یاسر ریشی کی پرست تنظیم بجرنگ دل کو سخت وراننگ۔ سنگین نتا ئج کی دی دھمکی
جموں میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کو بے دخل کئے جانے سے متعلق سخت گیر ہندوفرقہ پرست تنظیم بجرنگ دل کے احتجاجی مظاہرئے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قانون ساز کونسل کے ممبر یاسر ریشی نے خبر دار کیا ہے کہ اگر رو ہنگیا کے ان ستم رسیدہ مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم بند نہیں کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ ئیں گے۔ یاسر ریشی نے اس ضمن میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہاکہ رونگیائی مسلمان میانمار میں سرکارکی چھتر چھایا میں پیش آئی بدترین نسل نسل کشی سے بچنے کے لئے جموں میں پناہ گزین بن گئے تھے لیکن یہاں بھی ایک مخصوص ٹولہ جواپنی فرقہ پرست سوچ اور مسلمان دشمنی کے لئے مشہور ہے،ان کے پیچھے پڑ گئے اور آئے روز نت نئے حربوں سے ان کو تنگ کراکے مسائل سے دوچار کرانے کے پیچھے پڑ گئی ہے حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ بے یارومددگارمسلمانوں کا یہ ایک چھوٹا سا ٹولہ یہاں صرف اور صرف پناہ لیا ہوا ہے جس میں ان کے بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ بجر نگ دل اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کو اس معاملے میں سخت وارننگ دیتے ہوئے یاسر ریشی نے کہا کہ پناہ گزینوں کے لئے دنیا کی کوئی جگہ ممنوع نہیں اور وہ عارضی طور جہاں رہنا چاہیں، رہ سکتے ہیں اوراس بات کی ضمانت اقوام متحدہ کا منشور بھی فراہم کرتا ہے۔یاسر ریشی نے کہا کہ اگر رونگیائی مسلمان جن کی تعدد دس ہزار کے قریب ہے کشمیر میں رہنا پسند کریں تو کشمیر کے مسلمانوں خاص ضلع بانڈی پورہ اور سوناواری کاعوام جو مظلوموں کے دردوکرب کا بھر پور احساس رکھتے ہیں،کو انہیں اپنانے میں خوشی ہوگی اور ان کے لئے ہر طرح کی مہمان نوازی خوش بختی سمجھی جائے گی۔ انہوں نے ریاست جموں و کشمیر کے تمام مہذ بی جما عتوں بشمول جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث اور کاروان اسلامی سمیت دیگر چھوٹے بڑ ی تنظیموں سے روہنگیائی مسلمانوں کے حق میں آ واز اٹھا نے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ دور میں کسی اقلیت کے خلاف اس قدر ظلم و ستم کی کوئی مثال نہیں ملتی اور برمی حکومت مسلمانوں کو بے گھر کرنے کے درپہ ہے۔ ان کاکہناتھاکہ ان بے چاروں کو کوئی دوسرا ملک بھی قبول کرنے کو تیار نہیں اور وہ جائیں توجائیں کہاں اگر آ ج ہم خاموش رہے تو کل قیامت میں ہمارے یہ بھائی دعویٰ گیر ہوں گے۔۔۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.