سرینگر/ کشمیر نیوز بیورو/ اگرفردوس بروئے زمین است ہمی است ہمی ہمی است یہ مشہور جملہ مغل سلطنت کے ایک نامور بادشاہ جہانگیر نے کشمیر کے دورے کے دوران یہاں کی خوبصورتی کو دیکھ کر کہا تھا۔ آج بھی دنیا بھر میں کشمیر اپنی حُسن کی بناءپر جنت کہلایا جاتا ہے تاہم گذشتہ 3 دہائیوں سے سیاسی سطح پر حالت ٹھیک نہیں ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہے ۔ صبح و شام اٹھتے جنازے ، ماﺅں کی اپنے جوان بیٹوں خواہ وہ جنگجو ہو، عام شہری ہو یا پھر پولیس اہلکار غرض اپنے لخت جگروں کی جدائی میں سسکیوں کی آواز نے کشمیر میں ایسے شور کی آوازیں گھونج رہی ہے جس کا سننا اب انسانیت کے حد اختیار سے بالا تر ہو تا جا رہا ہے۔ ان حالات کے باوجود آج بھی کشمیر ی عوام نے تاہم ہمت نہیں کھوئی ہے اور آج بھی ایک پائدار امن و امان کی زندگی کےلئے کوشاں ہے ۔
کشمیر نیوز بیوروسے بات کرتے ہوئے امان اﷲ نامی ایک بزرگ شہری نے کہا ہم کشمیریوں کی ندگی ایک فٹ بال کے مانندبن گئے ہے جہاںعالمی سطح کے طاقتور ملکوں ہماری بے بسی اور لاچارگی کا بھر پور استعمال کرکے نہ صرف ہماری ماحو ل اور قدرت کی طرف سے ہمیں میسر سرمایہ کو ضائع کیا جارہا ہے بلکہ ہماری قیمی جانوں کو کوئی مول نہیں رکھا گیا ہے۔ انہو ں نے کہا آج بھی وہ دن جب یاد آتا ہے تو آنکھیں بھر آجاتی ہے جب لوگ امن و امان ، بھائی چارے کے ساتھ اس جنت میں رہتے تھے۔
ریاض چوھڑری ایک سماجی کاکن نے کشمیر نیوز بیورو کے ساتھ ماضی کی یاد دہراتے ہوئے کہا کہ 1990 سے پہلے یہاں شام کے وقت بازاروں میں جو رونق اور گاڑیوں کی آمد رفت ہوتے تھے وہ نازاہ باتوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ انہوں نے کہا 3 دہائیوں کی افرا تفری کے باعث اب نہ صرف یہاں کے امن و امان کو زک پہنا ہے بلکہ کشمیری عوام ایک ذہنی تناو کے شکار ہوگئی ہے۔
آصف احمد نامی ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ 1990 سے پہلے کوئی خوف و ہراس کا کشمیر میں کوئی اہمیت نہیں تھے لوگ رات دیر کو اپنے کاروبار سے لوٹ کر پپلک ٹرانسپورٹ میں آتے تھے تاہم گذشتہ 3 دہائیوں کے حالات نے یہاں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے این ائے قاضی ادھیڑعمر کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی میں کشمیر میں امن و امان کا ایسا ماحول تھا کہ رات دیر گئے تک کاروباری ادارے کھلے رہتے تھے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی کی سہولیات لوگوں کے لئے ہر وقت میسر تھی جس کےلئے آج کا ہر ایک کشمیر ی کوشاں ہے۔
2018-02-17
Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.