مغرب کے باشعو افراد کو صوفی ازم واضح اور قابل عمل جواب دیتا ہے
سرینگر/ کشمیر نیوز بیورو/ آج کے دنیا میں انسان اگر چہ تمام تر سہولیات سے لیس ہے تاہم آج پوری انسانیت کےلئے امن کو قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ابھر کر سامنے آیا ہے۔ امن و امان کے فقدان ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے بڑے بڑے مماملک جن میںشام، یمن، لیبیا یاکا خاص طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے انسانی خون سے سرخ ہے۔ انسانی خون کا گرنا ہماری ریاست خاص طور وادی کشمیر میں ایک معمول بن گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے حالات جہاں صرف اٹھتے جنازہ، ماﺅں کی سسکیاں اور غم کے اندھیر ے ہو وہاں امن کو کیسا لایا جاسکے تاکہ انسانی جانوں کے مزید زیاں ہونے سے بچالیا جائے۔
جہاں معاشرے میں باہمی محبت اور امن پھیلانے میں صوفی اور صوفی ادب کے کردار ایک اہم رول ہے وہیں غم کے اس طوفان کے بیچ ایک ایسے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جہاں انسان ابھر کر ایک پُر امن زندگی کی شروعات کر سکے اس ضمن میںصوفیت ایک ایسا علاج سامنے نظر آتا ہے جو نہ صرف تشدد کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ عالمی امن کو بھی دوام بخشنے کا پورا پورا ہنر رکھتا ہے۔ پاکستان کی نامور شخصیت زہرہ نثار کا کہنا کیا خوب ہے کہ صوفیت کے سائے تلے جہاں جنس یا جرم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کو اپنا کر امن کو بپا کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق صوفیت کے دائرے میں رہ کر اپنے خدا کی یاد میں مشغول ہوکر انسانیت کی قدر کا احساس ہوتا ہے جو پُرامن ماحول قائم کرنے اور انسانیت کے بچاﺅ کا موجب بن سکتا ہے۔
صوفی ہونے کےلئے محض صوفی منش ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ اپنے دل کی کوٹھڑی کی صفائی اور اس میں اﷲکی محبت کے ساتھ ساتھ اﷲکے بندوں سے محبت کی دھڑکنیں بھی شامل کرنا ہوں گی۔ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رب بستا ہے اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور ستائے ہوئے لوگوں سے محبت کر کے ہی ہم صوفیانہ طرز عمل کی بات کر سکتے ہیں۔ اپنے رویوں میں تبدیلی‘ خلوص اور مٹھاس کی چاشنی اور تعصب و نفرت کے رویوں کی بجائے محبتوں کے چراغ روشن کرکے ہی ہم صوفیانہ روایات کی پاسداری کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے بات اگر کرئے تو لازمی ہے کہ یہاں کے عوام بھی پُر امن طبعیت کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ گذشتہ 3 دہائیوں سے سیاسی سطح پر حالات پیچیدہ ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہے ۔ صبح و شام اٹھتے جنازے ، ماﺅں کی اپنے جوان بیٹوں خواہ وہ جنگجو ہو، عام شہری ہو یا پھر پولیس اہلکار غرض اپنے لخت جگروں کی جدائی میں سسکیوں کی آواز نے کشمیر میں ایسے شور کی آوازیں گھونج رہی ہے۔ ان حالات کے باوجود آج بھی کشمیر ی عوام نے تاہم ہمت نہیں کھوئی ہے اور آج بھی ایک پائدار امن و امان کی زندگی کےلئے کوشاں ہے اور اب یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ صوفیت کے دائرے میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان کارکن افان یسوی جو ’ یسوی فائڈیشن‘ کے بینر تلے صوفیت کومزید معروف کرنے میں دنیا بھر میں کام کررہے ہیں نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں باہمی محبت اور امن پھیلانے میں صوفی اور صوفی ادب کے کردار ایک اہم رول ہے ۔ انہوں نے کہا صوفی ازم امن کا علمبردار طریق ہے جو اپنی اعلی روایات ، اقدار اور اخلاقیات کے باعث پوری دنیا بالخصوص مغرب میں مقبول ہورہا ہے موجودہ حالات میں مغرب کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد کو صوفی ازم واضح اور قابل عمل جواب دیتا ہے جس وجہ سے مغرب کا باشعور اور خواندہ طبقہ صوفی ازم کی طرف مائل ہو رہا ہے تاکہ ایک پائیدار امن کی جگہ دی جاسکے۔
نذیر احمد نامی ایک عام شہری کا کہا ہے کہ صوفی ازم کافروغ موجودہ دور کے تقاضوں کی ضرورت بھی ہے اور اسے جدید علوم اور ادوار سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ صوفی ادب کادائرہ قرآن مجید کی تعلیمات سے ہی شروع ہوتا ہے اور وحدت الوجود کی اساس کو سمجھنے اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر اہم صوفیانہ منازل طے کر سکتے ہیں۔
2018-03-10
Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.