کشمیری عوام کواسلامی تعلیمات پرعمل پیراہونے کی ضرورت
مظفراحمد، کشمیر نیوز بیورو
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی تخلیق فرما کر اُسے اشرف المخلوقات اورزمین پراپنانائب بنایا۔بنی نوع انسان کی رُشدوہدایت کے لیے اُس نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء،چارکتابیں اورایک سو صحیفے بھیجے ۔ نبوت کاسلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر سرورِ کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اختتام پذیر ہوگیا۔چنانچہ قرآنِ مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوآخری نبی ہونے کااعلان کرتے ہوئے فرمایاہے کہ ”محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں ۔سب نبیوں کے ختم پراور ہے اللہ سب چیزوں کوجاننے والا “(پارہ ۲۲،سورہ ¿ احزاب ،آیت ۰۴)۔حضورِ اکرم نے ختم نبوت کے اِس قرآنی اعلان کی وضاحت ان لفظوں میں فرمائی تھی ۔”حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ نے بیچ کی اُنگلی اورتھمے کی اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ میں اورقیامت دونوں اس طرح ہیں (یعنی بیچ میں اورکوئی پیغمبر نئی شریعت والانہیں آئے گا“ ۱۔(۱۔بخاری شریف ،مترجم پارہ ۰۲۔کتاب التفسیر جلد نمبر۲،صفحہ ۱۴۰۱،ازامام الحدثین ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل بخاری ؒ ، ترجمہ از علامہ وحیدالزماں)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں( سورہ ’الکہف ۔۸۱:۸۲) میں عام افرادکویہ حکم دیاہے کہ وہ ان لوگوں کی صحبت اختیارکریں جوصبح وشام اللہ کے ذکرمیں سرمست رہتے ہیں اورجن کی ہرگھڑی یادِ الٰہی میں بسرہوتی ہے۔اللہ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جولوگ اللہ تعالیٰ کے ہوناچاہتے ہیں اُنھیں چاہیئے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاءاللہ کی صحبت اختیارکریں چونکہ وہ خوداللہ کے قریب ہیں اوراس لیے اللہ تعالیٰ نے عامتہ المسلمین کوان کے ساتھ جڑجانے کاحکم فرمایا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنھیں نہ جنگ کالالچ ہے اورنہ ولایت کا، نہ کرامت کاشوق ہے اورنہ شہرت کی طلب ،یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں اورنہ قصورکے۔ ان کاواحدمقصداللہ کادیار ہے ۔لہذاعام لوگوں کوتعلیم دی گئی ہے کہ جولوگ میر(اللہ ) کے مُکھڑے کے طالب ہیں انہیں بھی اُن کامکھڑاتکناچاہیئے اوراپنی نظریں اُن کے چہروں پرجمائے رکھنا چاہیئے جبکہ دوسری طرف اللہ کی یادسے غافل لوگوں سے دُوررہنے کاحکم دیاہے ۔پس اس سے ثابت ہواکہ جس طرح نبی کی ذات اُلوہی فیوضات حاصل کرنے کاذریعہ ہوتی ہے اسی طرح اولیاءبھی فیوضات ِ نبوت حاصل کرنے کاذریعہ اوروسیلہ ہیں ۔مولاناجلال الدین رومی ؒ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اس خوبصورت شعرمیں یوں بیان کیاہے ۔
ہرکہ خواہی ہم نشینی باخُدا اُونشیند صحبتِ اولیاء
(ترجمہ :جوکوئی اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتاہے اُسے چاہیئے کہ وہ اولیاءکی صحبت میں بیٹھاکرے)۔
”ولی “کے معنی ہیں دوست، مددگار،مصاحب ،وہ نیک بندہ جوخدا کی درگاہ میں مقرّب ہو۔مسلمان جب بہت عبادت کرتاہے اورگناہوں سے بچتاہے اوردُنیاسے محبت نہیں رکھتا،خُداکے رسول کی ہرطرح تابعداری کرتاہے تو وہ اللہ کادوست اورپیاراہوجاتاہے ۔ایسے مردِ مومن کو”ولی “کہتے ہیں ۔ولی سے ایسی عجیب وغریب اورچونکادینے والی باتیں ظہورپذیرہوتی ہیں جواورلوگوں سے نہیں ہوسکتیں۔ ایسی باتوں کو”کرامت“کہتے ہیں ۔ولی کتنے ہی بڑے درجہ کوپہنچ جائے مگرنبی نہیں ہوسکتا۔ خداکاکیساہی پیاراہوجائے مگرجب تک ہوش وحواس درست ہیں،شرع کاپابندرہنا فرض ہے۔نماز،روزہ اورکوئی عبادت معاف نہیں ہوتی ۔جوگناہ کی باتیں وہ اُس کے لیے درست نہیں ہوجاتیں جوشخص شرع کے خلاف ہووہ خداکادوست نہیں ہوسکتا ۔اگراُس کے ہاتھوں سے کوئی اچنبھے کی بات دکھلائی دے تو یاوہ جادو ہے یانفسانی اورشیطانی دھنداہے۔
لفظ صوفی کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیال ہیں ۔ایک گروہ کے نزدیک صوفی کالفظ اصل میں ”صفوی “تھا جوکثرت استعمال سے صوفی بن گیا۔ابوالحسن قتارکہتے ہیں کہ صوفی کالفظ ”صفا“ سے بناہے جس کامطلب اُنلوگوں سے ہے جنھیں قدرت نے پہلے ہی بشری کدورتوں اورغلطاظتوں سے پاک رکھاہے۔بض کہتے ہیں نہیں!جولوگ سادگی کی وجہ سے ’صوف‘کالباس پہنتے تھے وہ صوفی کہلائے ۔بعضوں کاخیال ہے کہ’ اصحابِ صفہ ‘کی مناسبت سے صوفی کالفظ عہدنبوت ہی سے وجودمیںآگیا۔جولوگ صحابہ ؒ سے فیض یاب ہوئے ان کےلئے تابعی اورتابعین سے جنھوں نے اکتساب فیض کیاان کے لیے تبعِ تابعین سے بڑھ کرکوئی لفظ موزوں نہیں تھا۔جب تبعِ تابعین کازمانہ بھی گزرگیا توصرف وہ لوگ رہ گئے جنھوں نے تبعِ تابعین سے زانوے تلمذتہہ کیاتھا ان کے لیے صوفی کالفظ استعمال کیاگیاکیونکہ تبعِ تابعین کے بعداگرکوئی لفظ موزوں ہوسکتاتھاوہ صرف صوفی کالفظ تھا ۔علامہ جوزی ؒ نے لکھاہے کہ قدیم صوفیاءقرآنِ حکیم ،حدیثِ نبوی ،فقہ اورتفسیرکے امام تھے ۔وہ لوگوں کوعلومِ شرعی کی ترغیب دیتے ،کتاب وسنت کی اتباع کرتے اوراس کی تاکیدفرماتے تھے ۔علامہ جوزیؒ کے مطابق حضرت خواجہ حسن بصری ؒ قدیم صوفیاءکے امام تھے۔یہ مضمون کشمیر نیوز بیورو سے موصول ہوا ہے۔
کشمیرکی جنت ِ بے نظیر کو”پیراواڑی “یاپیروں اورصوفیوں کے رہنے کی جگہ بھی کہتے ہیں ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وادی ¿ گلپوش میں جگہ جگہ پر اولیائے اللہ کے مقبرے موجود ہیں جنھوں نے محنت ِ شاقہ کے ساتھ دینِ اسلام کی اشاعت فرمائی ہے ۔کشمیرکے اہم اولیاءکرام میں حضرت بُلبل شاہ،حضرت شیخ جلال الدین بخاریؒ ،حضرت سید حسین سمنانی ؒ،حضرت امیرکبیرمیرسیدّعلی ہمدانیؒ (شاہ ہمدان ؒ)،حضرت مولاناپیرحاجی محمدقاریؒ،حضرت سیدبہاءالدین ؒ،حضرت سیدمحمدسراجؒ،حضرت سیدّجعفرؒ ،حضرت سیدمحمدکبیر بیہقیؒ ،حضرت سید محمدعین پوشؒ ،حضرت سید شہاب الدین ؒ،حضرت سید نعمت اللہ ؒ،حضرت بہاءالدین ثانی ؒ،حضرت سادات محمدؒ واحمدؒ ،حضرت سیدمحمدحصاری ؒ،حضرت سیدمحمدکرمانی ؒ ،حضرت سیدفخرالدین ؒ،حضرت سید عبداللہ ؒ ،حضرت سید میرمحمدہمدانی ؒ ،حضرت سید احمدسامانی ؒ ،حضرت سیدقاضی حسین شیرازی،حضرت سید محمدخاوری ؒ ،حضرت سیدعلاءالدین بیقہیؒ،حضرت سیدجلا الدین بخاری ؒ ،حضرت سیدعلی اکبرؒ ۔حضرت سیدنورالدین ،حضرت سید شہاب الدین ،حضرت سیدحضوراللہ ،حضرت شیخ بہاءالدین گنج بخش کشمیری ؒ ،علمدارکشمیر حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ المعروف نندہ ریشی ،حضرت باباجوہرالدین ریشی ؒ،سلطان العارفین حضرت شیخ حمزہ مخدوم کشمیریؒ وغیرہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ بھی سینکڑوں نام کشمیرکے اولیائے کرام کی فہرست میں شامل ہیں تاہم یہاں پرچنداولیائے کرام کاہی ذکرممکن ہے۔
کشمیرکی تواریخ اورتذکروں کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ حضرت بُلبل شاہ کشمیرکے آخری ہندوبادشاہ راجہ سہدیو۰۰۳۱ءتا ۰۲۳۱ءکے عہدمیں وسط ایشاسے آکرواردِ کشمیرہوئے ہیںاوریہاں آکراسلام کی تعلیمات کوعام کرکے انسانوں کواللہ تعالیٰ سے قریب کرنے کافریضہ انجام دیا۔
حضرت بلبل شاہ ؒ نے خودفرمایاہے کہ ”خدانے مجھے تین باتوں کااختیاردیاہے ۔اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی قدرت بخشی ہے کہ میں کھانے پینے اوراسباب تعیش کے بغیرہی زندہ رہ سکوں۔دُوسرایہ کہ اگرمیں چاہوں توجسم سے روح کے انقطاع کے بغیر ہی پاﺅں چل کر اسی بدن کے ساتھ دارالقراریعنی جنت میں جاسکتاہوں۔تیسرایہ کہ میں چاہوں تو اسی بدن کوابدالاآبادتک محفافظت کرسکوں گا“۔آنجناب ؒ نے خودہی یہ بھی فرمایاتھاکہ ”یہ تینوں سنتِ نبوی کے خلاف ہیں ۔اس لیے ان باتوں کا مرتکب کبھی نہ ہوسکوں گا ۔اُن کے ملفوظات میں یہ بھی آیا ہے کہ ”جب تک سالک کادِل خالص اورزباں سالم اُس کی بقدرنہ ہو تب تک اس راہ کے شیاطین اُسے منزل کی طرف ایک قدم بھی آگے بڑھنے نہ دیں گے ۔حرام سے دُوررہناچاہیئے جس طرح پہاڑمیں سانپ سے دوررہاجاتاہے ۔شبہ اوربے یقینی سے ایساہی بھاگناچاہیئے جیسے بازارمیں مُردار سے بھاگاجاتاہے اورحلال کی روزی سے بھی اتناہی کھاناچاہیئے جتناکہ بھوک میں ایک متقی انسان مردارسے مجبوراً کھاتاہے ۔جب تک بعض حلال چیزوں سے بھی پرہیزنہیں کیاجائے تب تک مشتبہ بلکہ حرام سے بھی کامل طورپربچنانہایت مشکل ہے “۔
کشمیرکی وادی ¿ گلپوش میں اگرچہ اسلام کی نوری شعاعیں حضرت بلبل شاہ ؒ کی رینچن شاہ (سلطان صدرالدین) کے عہدحکومت میں تشریف آوری سے ہی پڑنی شروع ہوگئی تھیں مگرتبلیغ اسلام کانیک مشن آگے لے جانے والوں میں حضرت شیخ جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری ؒ ۸۴۷ءمیں سلطان علاﺅ الدین کے دورِاقتدارمیں کشمیرآئے اوراس کے بعدبھی سینکڑوں اولیاءاللہ سرزمین کشمیرمیں دعوتِ دین کوعام کرتے رہے ۔
موجودہ دورمیں کشمیرمختلف قسم کے مسائل سے دوچارہے اورکشمیری معاشرہ بے راہ روی اوراخلاقی تنزلی کابھی شکارہے ۔اولیاءاللہ کی تعلیمات اوراسلام کے حقیقی پیغام پرعمل پیراہونے سے نوجوان نسل اورمعاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے کےلئے وقت کایہ تقاضاہے کہ اسلام کی تعلیمات کی پیروی کی جائے ۔صوفیوں ،اولیاﺅں،رشیوں ،منیوں نے یہی تعلیم دی ہے کہ انسان کودوسروں کےلئے آسانیاں پیداکرنی چاہیئے ۔آج کشمیری معاشرہ کس طرح جارہاہے یہ غورکرنے کی بات ہے ،کشمیری سماج میں ناآسودگی ،بے اطمینانی کی کیاوجوہات ہیں ،کیاہم کشمیری اسلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کوحقیقی معنوں میں اپنی زندگیوں میں اپنارہے ہیں ،اس پرسوچنااورمعاشرے کے سدھارکےلئے کوششیںوقت کاتقاضاہے۔اگرکشمیری عوام نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم ،تابعین،طبع تابعین ،اولیاءکرام اورصوفیوں کی تعلیمات پرعمل پیراہوگی توکشمیری سماج میں سکون اوراطمینان پیداہوجائے گااورعام کشمیری خوشحا ل زندگی بسرکرے گااوراگرایسانہ ہواتوذلت کشمیری عوام کامقدربنتی رہے گی۔اسلامی تعلیمات پرجب اُمت عمل پیرانہیں ہوتی ہے تواس کےلئے رسوائی مقدربنتی ہے اس لیے ہم سب کشمیری بھائیوں کوغوروفکرکرناچاہیئے کہ کیاہم سرزمین کشمیرجسے پیراواڑی یعنی پیروں اورصوفیوں کی جگہ بھی کہاجاتاہے اس کاحق اداکررہے ہیں۔آخرمیں یہی کہوں گاکہ نبی آخرالزماں ﷺ اوراللہ کی خوشنودی کےلئے ہمیں اسلامی تعلیمات پرعمل پیراہوکرنوجوانوں کوسیدھے راستے پرچلاناہوگاتاکہ اسلام کی بگڑی ہوئی شبیہ درست ہوسکے ۔بشکریہ یہ مضمون کشمیر نیوز بیورو ۔
2018-02-20
Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.