ہڑتالوں اور بدامنی کی وجہ سے کشمیر کا ہر شعبہ متاثر

تعلیم کو سیاست اور تنازعات سے دور رکھنا ہوگا
سرینگر ، 27 مئی (کے این بی)/کشمیر میں کسی نہ کسی بہانے سے روزانہ ہڑتال اب معمول بن چکا ہے۔ 2008 سے اب تک کشمیر میں ہرتال کے 4 بڑے مرحلے منظر عام پر آ چکے ہیں -2008 میں امرناتھ زمین تنازعہ، 2009 میں شوپیان واقعہ ، 2010 کی بد امنی اور 2016 میں حزب کمانڈر برہان وانی کی موت کے بعد خراب حالات سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی – 2018 میں بھی بہت سے قیمتی دن ہرتال اور بدامنی کی وجہ سے کشمیر میں ضائع ہوئے۔ہڑتال کے لگاتار چلے آ رہے مرحلوں کی وجہ سے کشمیر کا ہر شعبہ تعلیم سے لے کر صحت، سیاحت سے لے کر تجارت، غرض سب بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ طلباء کے بھی ہڑتال کی وجہ سے بہت سے تعلیمی دن ضائع ہوئے ہیں ۔اب بہت سی آوازیں ایسی بھی آ رہی ہیں جن کا ماننا ہے کہ
ہڑتال کے عمل کو ختم کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے کشمیر کا ہر شعبہ متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔
شبیر احمد نامی ایک ڈرائیور کا کہنا ہے کہ، ©”میں ایک ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرتا ہوں اور اصل میں ایک ڈیلی ویجر ہوں کیونکہ میرا دارومدار روزانہ آمدنی پر ہے اور میں نے گاڑی بنک سے لون پر لی ہوئی ہے مگر2016 کی بدامنی اور اب اکثر اوقات میں ہرتال کی وجہ سے میں مشکل وقت سے گزر رہا ہوں، میں نے بہت بار اپنی جان پر کھیلا کیونکہ مجھے میرا لون واپس ادا کرنا تھا- ہمیں اپنے سیاسی مسائل کو آگے بڑھانے کے لئے نئے تریقوں کو ڈھونڈنا ہوگا ورنہ ہمیں اس کی سخت سزا ادا کرنی پڑے گی۔ ہم ڈرائیور اور ڈیلی ویجر اپنے کیچن کی ضروریات تب ہی پوری کر سکتے ہیں جب ہڑتال و بد امنی کا سماں نہ ہو ©“۔
گلزار احمد نامی ایک ٹھیلے والے کا کہنا ہے کہ، ”ہڑتال اور لگاتار بد امنی کی وجہ سے عام انسان کے روز کا بزنس متاتر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم جیسے عام انسان یا ڈیلی ویجر کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے لئے روز کی کمائی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ ہمارے رہنماو ¿ں کو ہم غریب عوام کی خاطر کچھ متبادل پالیسی سوچنی چاہیے۔ بدامنی اور ہڑتال عام انسان کی ریت کی ہڈی توڑ کر رکھ دیتی ہے © ©“۔
دوسری طرف تجربہ کار لوگوں کا ماننا ہے کہ تعلیمی تہذیب میں مقابلوں کی غیر موجودگی سے کشمیری نوجوانوں کو اعلیٰ سطحی تعلیمی امتحانات میں مہارتوں کی کافی کمی محسوس ہوگی۔
ماہر تعلیم جی این وار (صدر پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن) نے کچھ وقت پہلے اس حوالے سے کشمیر نیوز بیورو کو بتایا تھا کہ، ©”سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کو سیاست اور تنازعات سے دور رکھنا ہوگا۔ جنگ عظیم کے دوران بھی دو دشمن فوجیں سکولوں کو کھلا رکھنے پر راضی ہوئی مگر یہاں ہم غیر شائیستہ پالیسیوں سے کام لیتے ہیں ©“۔
ہڑتال کے دوران صرف اتنا ہی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اکثر سرکاری ملازمین بھی ہڑتال کے دوران اپنے دفتروں تک پہنچنے کو مشکل سمجھتے ہیں جس وجہ سے عام انسان کو مزید تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ سرکاری دفاتر میں کام کاج رک جاتا ہے۔
اسی طرح شعبہ سیاحت جس پر کشمیر کی اکثر آبادی کا دارومدار ہے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مدثر مرن جو سیاحت سے جڑے ایک کاروباری ہیں نے کشمیر نیوز بیو روکو بتایا کہ، 2018 میں پھر سے ایک بار بدامنی اور ہڑتال کی وجہ سے سیاحتی شعبہ کچھ خاص نہ رہا ۔ پہلے ہی 2008،2010 اور 2016کے عوامی احتجاجوں کی وجہ سے سیاحت کو کافی نقصان پہنچا ہے کشمیر کی سیاحتی صنعت میں کمی کی پوری ذمہ داری سیاسی غیر یقینی صورتحال پر آید نہیں ہو سکتی ۔ خواہ ہرتال ہو، بندھ ہو یا کرفیو ہو اس نے ثابت کیا کہ کس طرح امن وادی میں خراب ہوا ہے اور کس طرح اس نے عام زندگی متاثر کی ہوئی ہے چاہے وہ تعلیم ہو، تجارت ہو، صحت ہو یا پھر سب سے زیادہ سیاحت۔
زمینی نبض سے معلوم ہوتا ہے کہ ہڑتال کی وجہ سے کشمیر میں ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اب ضرورت ہے کہ ہڑتال اور بدامنی کو خیر باد کہہ دیا جائے ۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.