کشمیر کی سیاست میں مقامی نوجوانوں کیلئے راہیں ہموار نہ کرنا لمحہ فکریہ

سرینگر / کشمیر نیوز بیورو/19 مئی/تنازعہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر میں پچھلی3 دہائیوں سے نوجوانوں نے تشدد اور خونریزی کے بدترین دور کا سامنا کیا ہے ۔قتل و غارت گری، بدامنی اور ہڑتال کی وجہ سے نوجوانوں کو کافی متاثر ہونا پڑرہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں سیاسی خلا کی کمی نوجوانوں کو پشت بہ دیوار کرنے کی ذمہ دار رہی ہے کیونکہ نوجوانوں کو مین اسٹریم سیاست یا علیحدگی پسند سیاست میں ٹھوس جگہ نہیں ملتی۔ نوجوانوں کو اپنے آپ کو ثابت کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا یہ کہہ کر ان کے پاس اس بات کا تجربہ نہیں جس سے وہ ریاست کی گورننس میں حصہ لے سکیں ۔
کشمیر نیوز بیورو نے اس حوالے سے مختلف سوچ کے لوگوں کے ساتھ گفتگو کی تاکہ زمینی نبض کو جانا جاسکے۔
رفیع احمد میر ایک سیاستدان اور حکمران جماعت پی ڈی پی کے ترجمان اعلیٰ نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ”ہم نوجوانوں کی قلیل تعداد میں سیاست میں حصہ لینے کے خدشات سے باخبر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو سیاست یا جماعت میں نوجوانوں کی شمولیت کے حوالے سے مزید ادار نقطہ نظر دکھانے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ سیاست کی طرف آئیں اور سیاست کا انتخاب کرنے کے دوران صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔“
اسی موضوع کے متعلق سالویشن مومنٹ کے چیرمین اور سینئر مزاحمتی رہنما ظفر اکبر بٹ نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،”کشمیری نوجوان کشمیر کی جدوجہد میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور قیمتی قربانیاں پیش کر رہے ہیں ۔میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کو نہ صرف سیاست میں حصہ لینا چاہتے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں چاہے صحافت ہو، وکالت ہو یا سائینس ہو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے تاکہ وہ ان سطحوں پر بھی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کےلئے اقدامات اٹھا سکیں۔یہاں نوجوانوں کو مزاحمتی سیاست میں لانے کا بھی اچھا موقع ہے نوجوان انسانی وسائل کا ایک اہم حصہ ہے اور ہمیں ان کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ہمیں فیصلہ سازی کے عمل میں نوجوانوں کی رائے لازماً لینی چاہئے ۔ ظفر کا مزید کہنا تھا کہ مزاحمتی تحریک کسی شخص یا خاندان کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ کشمیری عوام کی اجتماعی وراثت ہے جسے سب کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو صف اول پر ہیں انہیں نوجوانوں کی شرکت یقینی بنانی چاہیے۔ ©“
انعام النبی جو ایک سیاسی تجزیہ نگار ہیں نے کشمیر نیوز بیورو سے اس موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ،” سیاسی خلا کی کمی کشمیر میں ایک واضح حقیقت ہے، دونوںمین اسٹریم اور مزاحمتی سیاست کے قائدین کو اس حوالے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ طالب علم کی سرگرمیوں پر روک لگا دی گئی ہے اور انہیں ابھرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کی بنیادی ضروریات بھی نظرانداز کی جا رہی ہیں، اور انہیں استعمال کریں اور معرفت کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انتظامیہ بھی نوجوانوں کے ساتھ فٹبال کی طرح کھیل رہا ہے۔ خاندانی سسٹم راج کر رہا ہے جو نوجوانوں کو پشت بہ دیوار کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ دوسری جانب مزاحمتی سیاست میں بھی نوجوان نمایاں کردار ادا نہیں کر رہے ہیں، حالانکہ پوری آزادی کی تحریک نوجوان چلاتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہاں نوجوانوں کے حلقے موجود نہیں ۔ ہم نے حریت دھڑوں میں کسی نوجوان رہنما کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھا۔“
کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو سیاسی سطح پر جگہ نہ ملنے کی وجہ ان کو بندوق کی طرف مائل کرتا ہے اس لئے لازمی ہے کہ ان کو پشت بہ دیوارکرنے کے بجائے ان کی سیاسی گلیاروں میں راہیں ہمرار کی جائیں۔ (کے این بی)

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.