کشمیر میں بار بار کی غیر یقینی صورتحال تعلیمی شعبہ کےلئے متاثر کن

عوامی حلقوں کا تعلیمی شعبے کو سیاست سے دور رکھنے کی اپیل
سرینگر/ کشمیر نیوز بیورو/تعلیم ہر سماج کے لیے سب سے بر تر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بغیر سماج یا قوم کی کوئی وقعت نہیں سوائے اس کے کہ ایک غیر مہذب ہجوم جس کا نہ کوئی مقصد اور نا ہی کوئی سمت۔مگر بدقسمتی سے پچھلی 3 دہائیوں سے لگاتار سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کشمیر میں شعبہ تعلیم بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ موجودہ حالات میں لگاتار بدامنی کی وجہ سے پہلے سے ہی متاثر ہو چکے تعلیمی شعبے پر اور زیادہ اثر پڑھا ہے ۔قتل و غارت، پر تشدد احتجاج کے ساتھ ساتھ لگاتار ہڑتال، بندشوں اور ریاستی سطح پر پچھلے ماہ سے جاری بند کی ہدایات نے طلبہ کے تعلیمی کیلنڈر کو برباد کر کے رکھا ہے، حالانکہ موجودہ بدامنی سے پہلے تعلیمی ادارے موسم سرما کی چھٹیوں کے حوالے سے 2.5 ماہ کے لیے بند تھے ۔والدین، طلبہ اور ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ مسائل زدہ حالات کا جلد ہی کوئی حل نکالا جانا چاہئے تاکہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔پریشان کن حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے نامور شخصیات نے اس بات پر زور دیا کہ طلبہ کی تعلیم کو سیاست، مسائل، سرکاری احکامات اور ہڑتال سے دور رکھا جانا چاہیے تاکہ طلبہ کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو ۔موجودہ افراتفری سے تکنیکی طور پر تعلیمی پروگرام کے انعقاد کرنے پر بھی اثر پڑھتا ہے – ہڑتال کی وجہ سے بھی وادی کے تعلیمی شعبے پر گہرا اور نقصان دہ اثر پڑھا ہے۔ماہر تعلیم جی این وار جو پرائیویٹ سکول ایسوسیشن کے صدر بھی ہیں نے کشمیر نیوز بیریو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ©”سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کو سیاست اور شورش سے دور رکھا جائے۔ ریاستی حکومت نے پچھلے سیاحتی ٹاای کے پیش نظر حالات کو بہتر رکھنے کی پوری کوشش کی مگر تعلیم کے حوالے سے ایسی کوئی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی ہے- جنگ عظیم کے دوران بھی دونوں طرف کی فوجیں تعلیمی اداروں کو کھلا رکھنے پر متفق ہوئیں مگر یہاں پر ہم بالکل ناسمجھ حکمت عملی اپنا رہے ہیں © ©“۔تجربہ کار شخصیات کا ماننا ہے کہ مسابقتی تعلیم کی غیر موجودگی سے نوجوانوں کو مسابقتی امتحانات میں پریشانی آ سکتی ہے ۔آصف کنتھ جو ایک اثالیق (ٹیوٹر) ہیں نے کشمیر نیوز بیرو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ” ہم کشمیر میں پچھلے 30 سال سے خون خرابہ اور درد محسوس کر رہے ہیں مگر دوسری طرف ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تعلیم کے بغیر سماج یا قوم کی کوئی وقعت نہیں ہے – ہمیں کوئی ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جس سے تعلیمی اداروں کا پورا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ سکے کیونکہ یہ دانشور سطح پر ہمارے لیے بڑا سانحہ ہے – سماج کی با اثر شخصیات کو یہ بات واضح جاننی چاہیے کہ اگر تعلیمی ادارے پوری طرح کام نہ کریں تو ہماری تعلیمی تصویر کو نقصان پہنچے گا“۔ بہت ساروں کا کہنا ہے کہ، تعلیم کا کوئی متبادل نہیں اور تعلیمی اداروں کو کھلا رکھنے کو ہمیں ترجیح دینی ہوگی ۔مجیب میر جو ایک نوجوان کارکن ہیں کا کہنا ہے کہ، ”تعلیمی ادارے ہر سماج کے لیے ریت کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ مستقبل میں آنے والی نسلوں کو تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں، ہڑتال اور بندشوں سے صرف تجارت پر اثر نہیں پڑتا بلکہ اس سے تعلیمی شعبہ پر بھی برا اثر پڑھتا ہے۔ وادی کے اکثر تعلیمی ادارے بہت دنوں تک بند رہتے ہیں اور کبھی مہینوں تک بھی، اب وقت آگیا ہے کہ ہم سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کو نامساعد حالات میں کھلا رکھنے کے بارے میں سوچیں تاکہ ہمارے سماج کو تعلیم کے حوالے سے مزید نقصان نہ پہنچے۔“زمینی صورتحال اس بات پر زور دیتی ہے اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تعلیم کو سیاست سے دور رکھا جائے اور تعلیمی اداروں کو فیصلہ لینے کے حوالے سے مزید خودمختاری دی جائے تاکہ جن علاقوں میں بدامنی کا زیادہ اثر نہیں وہاں تعلیمی ادارے کام کر سکیں ۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.