نامور شخصیات کا صوفی تعلیمات کی طرف نوجوانوں کو دوبارہ معائنہ کرنے کا مشورہ

سرینگر /کشمیر نیوز بیورو/تشدد، بنیاد پرستی اور غیر یقینی صورتحال کی سیاہ راتوں کے باوجود بزرگ اور نامور شخصیات کشمیری نوجوانوں کو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ صوفی تعلیمات کی طرف توجہ دیں تاکہ کشمیر میں پھر سے امن کی بہار ہو۔ یہ بات یہاں پر قابلِ ذکر ہے کہ کشمیر میں اسلام کسی ظالمانہ یا خونی تصادم کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ صوفی بزرگوں کی کوشش اور مشقت کی وجہ سے آیا ہے ۔ جو نشانات اسلام نے کشمیریوں پر چھوڑے ہیں، انہیں ایک نامور تاریخ نگار پریم ناتھ بزاز نے صحیح معنوں میں محسوس کیا تھا، ”سیاست نے کشمیریوں کو غیر انسانی بنا رکھا تھا، اسلام نے انہیں پھر سے انسان بنا دیا-۔ ©“جس طرح کشمیر میں مسلم حکومت زیادہ خون خرابے کے بغیر قائم کی گئی تھی بالکل اسی طرح وادی کے اطراف میں اسلام کی دعوت کو پر امن اور عام فہم انداز سے میر سید علی ہمدانی(رح) اور ان کے سادات نے پہنچایا جو ہمدان اور فارس کے دوسرے علاقوں سے کشمیر تشریف لائیں تھے۔یہیں وجہ ہے کہ رشی اور صوفی بزرگوں کی کثرت تعداد اور میراث کی وجہ سے کشمیر عالمی سطح پر مشہور ہے ۔خانیار دستگیر صاحب کی زیارت گاہ کا دورہ کر کے دل کو ایمان، امن اور بھائی چارے کی مثال محسوس ہوتی ہے – دستگیر صاحب ایک صوفی بزرگ کی زیارت گاہ ہے جو سرینگر کشمیر کے خانیار علاقہ میں واقع ہے، دستگیر صاحبکے نام سے منصوب مشہور و معروف صوفی بزرگ شیخ عبدال قادر جیلانی (رح) کے نام پر وقف ہے ۔کشمیر نیوز بیورو کے ساتھ بات کرتے ہوئے دستگیر صاحب زیارت گاہ میں ایک متولی (نگران)، حنیف احمد نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، © ©” ہمیں امن، ترقی اور خوشحالی تب حاصل ہوگی جب ہم صوفی تعلیمات کو عملانے کی کوشش کریں۔ ہم کشمیر میں بہت سے مسائل اور مشکلات میں مبتلا ہیں کیونکہ ہم صوفی تعلیمات سے بہت دور ہوے ہیں – کشمیر کا کھویا ہوا جنت دوبارہ تب حاصل کیا جا سکتا ہے جب ہم صوفی تعلیمات کی طرف واپس آئیں – صوفی بزرگوں نے ہمیں بھائی چارے، انسانیت کی تعلیم دی ہے اور رنگ، نسل اور ذات کی بنیاد پر امتیاز نہ برتنے کی تعلیم دی ہے۔“بلال احمد نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ”آج کشمیر تاریخ کے سیاہ ترین باب سے گزر رہا ہے اور نوجوانوں کی آنکھوں میں منفی فورسز کی طرف سے دھول پھینکی جا رہی ہے جس کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں، خون خرابہ ہر دن کا معمول بن چکا ہے۔اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب خصوصاً نوجوان صوفی حضرات کے امن، اجتماعی اور ہوشمند تعلیمات کو دوبارہ فروغ دیں تاکہ ہم اپنے لٹے ہوئے جنت کشمیر کو مزید تباہی اور بربادی سے بچا سکیں۔صوفی بزرگوں کی انسانیت، امن اور بھائی چارے کی تعلیمات میں ہمارے سبھی مسائل خواہ وہ سماجی ہوں یا سیاسی کا حل موجود ہے ۔بلا شبہ زمینی نبض یہ ہے کہ کشمیری نوجوان صوفی دانائی اور قوت برداشت کا دوبارہ سے معینہ کر کے کشمیر کو مزید مشکلات میں مبتلا ہونے سے بچائیں۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.