منفی سیاسی صورتحال ریاست کی معاشی ترقی میں مانع

کشمیر نیوز بیورو
گذشتہ کچھ دہائیوں سے جنگجویانہ سرگر میاں پوری دُنیاکےلئے ایک چیلنج اور باعث فکر و تشویش بنی ہوئی ہیں۔ہرکوئی یہ سوچنے پرمجبورہے کہ آخروہ کون لوگ ہیں جو ایسی دہشت ناک سرگر میوں کوجنم دے کرانسانیت کونیست ونابودکرناچاہتے ہیں ؟۔ وادی کشمیرجسے جنتِ ارضی کہاجاتاہے، میں بھی جنگجویانہ سرگرمیاں عروج پر ہیں ۔ گذشتہ 27 برسوں یعنی 1990کے بعدسے اب تک وادی کشمیرمیں ملی ٹینسی کی وجہ سے 41,000افرادجان بحق ہوچکے ہیں ۔جاں بحق ہوئے افرادمیں کسی کابھائی،کسی کابیٹا، کسی کاشوہر،کسی کی بہن،کسی کاباپ ،کسی کی ماں ،کسی کی بیوی شامل ہیں ۔وادی کشمیرجوکہ خوبصورت جھرنوں،ندی نالوں،خوبصورت باغیچوں اورصحت افزامقامات کے باعث دُنیابھرمیں اپنی خوبصورتی کےلئے دُنیامیں جنت کے طورپرتصورکی جاتی تھی لیکن 1989میں ریاست جموں وکشمیرمیں ملی ٹینسی کاایک ایسادورشروع ہواجواب تک ختم ہونے میں نہیں آرہاہے ۔یہاں معصوم لوگوں ،پولیس اورسیکورٹی فورسز اہلکاروں پرحملوںا وران کی ہلاکتوں کے باعث زندگی اجیرن بن کررہ گئی ہے اورلوگ بالخصوص سیاح وادی کشمیرمیں سیاحت کےلئے آنے سے کترارہے ہیں۔ ریاست کو سماجی اوراقتصادی طور بھی پربھاری نقصان اُٹھاناپڑاہے ۔
جیساکہ بتایاجاچکاہے کہ گذشتہ 27برسوں کے دوران وادی کشمیرمیں ملی ٹینسی کی وجہ سے 41ہزارافرادہلاک ہوئے۔ان ہلاکتوں کومدنظررکھتے ہوئے دیکھاجائے تو ہلاکتوں کی شرح ہرروز 4افرادہے یا1519ہرسال ہوتی ہے۔اعدادوشمارکے مطابق ان ہلاک ہوئے افراد میں 14ہزارعام شہری ،5ہزارسیکورٹی فورسزاہلکارشامل ہیں ۔
اعدادوشمارکے مطابق سال 2001 میں 4522 ملی ٹینسی کے واقعات پیش آئے جن میں 996عام شہری ،536سیکورٹی اہلکارشہیدکئے گئے ۔اسی طرح سال 2002 میں ملی ٹینسی کی واردات میں 1008 عام شہری ہلاک ہوئے ۔وادی کشمیرمیںگذشتہ تین چاربرسوں سے ملی ٹینٹوں کے حملوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہواہے ۔ذرائع کے مطابق مارچ 2017سے 2017تک ملی ٹینسی کے 795واقعات رونماہوئے جن میں64عام شہریوں اور178 سیکورٹی اہلکاروں کی جانیں تلف ہوئیں ۔2014میں ملی ٹینسی کے واقعات 222تھے جن میں 28عام شہری ،47سیکورٹی اہلکارہلاک ہوئے ۔اور2016 میں ملی ٹینسی واردات کی تعدادبڑھ کر 322ہوگئی جن میں 15عام شہری،82سیکورٹی اہلکار جان بحق ہوئے۔
درج بالاحقائق سے معلوم ہوجاتاہے کہ ان جنگجویانہ سرگرمیوں کی وجہ سے کشمیرمیں کس قدرتباہی وبربادی ہوئی ہے ۔ایک توہزاروں بیش قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اوردوسراعلیحدگی پسندوں کی ہڑتالوں کی وجہ سے جہاں بچوں کی تعلیم اورعام آدمی کی زندگی بری طرح متاثرہوئی وہیں کشمیرکی معیشت بھی بری طرح تہس نہس ہوئی ۔غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے کہ ہزاروں گھروں کے چشم وچراغ ان سرگرمیوں کی بھینٹ چڑھ گئے جس کی وجہ سے ان گھروں میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والاکوئی نہیں رہا۔ مہینوں سکول بندرہنے کی وجہ سے طلباءکی تعلیم بری طرح متاثرہونے سے ان کے قیمتی تعلیمی سال ضائع ہوئے ۔تعلیم ایک ایسانورہے جس کے ذریعے انسان ترقی کے زینوں کوپار اورترقی کی منازل طے کرسکتاہے لیکن کشمیرکے نوجوانوں کوتعلیم سے محروم رکھاجارہاہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ بچوں کوتعلیم کی طرف راغب کرنے کے بجائے ان کو منفی سوچ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ شعبہ سیاحت جسے ٹورازم کہاجاتاہے شدیدطورپرمتاثرہوا،جولائی سے اکتوبر۔نومبر2016کے دوران میں جوسیاحت کے شعبے نے بیرونی ریاستوں وممالک سے کشمیرکی سیاحت وتفریح کےلئے آنے والے سیلانیوں کے ذریعے کماناتھاوہ گذشتہ سال شعبہ سیاحت نہیں کماسکاجس کی وجہ سے کشمیرکی معییشت کوبہت ہی زیادہ نقصان ہوا۔اگرکشمیرمیں سیاسی صورتحال ٹھیک ہوتی توسیاحت کاشعبہ بہترطریقہ سے کام کرتااورمقامی لوگوں کو اقتصادی طور کافی فائدہ ہوتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہرکوئی شخص وادی کشمیر میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ نئی نسلوں کا مقدر بدلے اور آنے والے دنوں میں عوام بہتر زندگی گزاریں توہم سب کومشترکہ کوششیں کرکے اس منفی صورتحال کو مثبت ڈگرپر لانا ہوگا۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.