مشکلات سے دوچار کشمیری نوجوان نے امید کی کرن نہیں چھوڑی ہے

                                                                       تین ایسے نوجوانوں کی کہانی جنہوں نے اپنے جذبہ اور ہنر کا پھر پور فائدہ اٹھایا
سرینگر/کشمیر نیوز بیورو/ بلال بشیر بٹ/مشہور مصنف روبوٹ ایچ شولی لکھتے ہیں کہ، ”سخت وقت کبھی بھی برقرار نہیں رہتا، مگر سخت انسان ضرور رہتے ہیں“۔ یہ الفاظ ان کشمیری نوجوانوں کے شایانِ شان ہیں جو آج کے مشکل ترین حالات میں زندگی کے مختلف شعبوں میں چمک رہے ہیں ۔ایسے ہی تین نوجوانوں سے کشمیر نیوز بیورو نے ان 3 کشمیری نوجوانوں سے بات کی جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے باقی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
مدثر مرن، ( پیشے سے لکڑی آرٹ کے ماہر ہیں)
مدثر مرن جو نروارہ کے ڈاون ٹاون علاقے سے تعلق رکھنے والے ہیں نے لکڑی نقاشی اور فن کو ایک نئی سمت دی ہے۔وہ اپنا ایک شوروم،’پیراڈائز ووڑ ہاوس‘سرینگر جموں قومی شاہراہ پر لیتھ پورہ کے مقام پر چلاتے ہیں (جو کشمیری فنون اور دستکاری کا مرکز ہے) ۔ کشمیر نیوز بیریو کے ساتھ خصوصی طور بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”لکڑی نقاشی اور اس فن سے منسلک نمونے عالمی سطح پر کشمیر کی بہتر نمایندگی کرتے ہیں ۔کشمیر میں لکڑی سے بنے فرنیچر اور عیش و آرام کی آرائشی اشیاء کا کہیں پر بھی کوئی مقابلہ نہیں کیوں کہ جن ہاتھوں سے اس پر محنت کی جاتی ہے وہ حقیقت میں سونے کے ہاتھ ہیں۔جو اشیاء بنایے جاتے ہیں وہ ہموار ہوتے ہیں، آپ کو لکڑی سے بنے ان اشیاء میں کوئی بھی غلطی نہیں ملے گی۔“مدثر مرن کا ماننا ہے کہ آج کے دن اور آج کے دور میں جب بیروزگاری کی بحث چھڑ رہی ہے اگر کشمیر کے نوجوان لکڑی نقاشی کی طرف سنجیدگی سے آئیں، تو یہ منافع اور آمدنی کا اچھا ذریعہ بن جائے گا ۔مدثر محسوس کرتے ہیں کہ، حکومت کی مدد اور نوجوانوں کی دوبارہ منظم دلچسپی سے لکڑی نقاشی کی صنعت سے نوجوانوں کو منافع بخش مواقع فراہم ہو سکیں گے کیونکہ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ لکڑی سے بنے اشیاءکی امیر حلقوں میں زیادہ مانگ ہے ۔
شافیہ شفیع(24 سال کی عمر میں شازیہ وادی کشمیر کی ایک ابھرتی پینٹر اور فنکار ہے )
سرینگر کے لال بازار علاقے سے بہت کم عمر میں انہوں نے بہت سارے اعزاز پایے ہیں جب انہوں نے معتبر مقابلوں میں انعامات حاصل کیے۔کشمیر نیوز بیوروسے بات کرتے ہوئے شافیہ نے کہا کہ، ”مجھے سکول کے دنوں سے ہی خاکہ سازی کا شوق تھا اور پھر پھر عمر کے ساتھ میرے شوق بڑھتے گیے، پہنٹنگ اور مٹی کی ماڈلنگ میں میرا شوق زیادہ بڑھ گیا ۔ اپنی پینٹنگ کے ذریعے میں اپنے احساسات، جذبات اور لوگوں کے درد کو اظہار کرتی ہوں۔ میں اپنے کام کے ذریعے عورت کے درد اور مسائل کا بھی اظہار کرتی۔“جب مقابلے کی بات ہو تو شافیہ شفیع کامیابی کی نمایندگی کرتی ہیں۔ ڈجیٹل اینڑیا کمپین کے پوسٹر میکنگ مقابلہ میں شازیہ شفیع نے کالج میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور کشمیر یونیورسٹی کے سالانہ تہوار سونزل کے فنون لطیفہ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی اور نارتھ فیسٹ انڑیا کے لئے بھی چنی گیی جو امبالا ہریانہ کی مہاریشی مارکنندیسوار یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا جہاں انہوں نے دوسری پوزیشن حاصل کی اور قومی سطح پر جگہ بنائی۔انھوں33 قومی نوجوانوں کے تہوار میں ریاست کی نمایندگی کی جو رانچی میں منعقد ہوا تھا اور تنصیب میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ان کا ماننا ہے کہ صحیح رہنمائی اور سہارے سے ان کے سفر کیریئر میں کافی کچھ ہے اور مضمون کے حوالے سے نفسیات کا انتخاب بہی ان کے ہنر سے کافی میل کھاتا ہے ۔
ثاقب میر، (کشمیر میں پہلی فرانسیسی تنور کی دکان کے مالک)
ثاقب میر جو سرینگر کے بالیواڈ علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں انہوں نے نوجوانوں کو ایک نئی افق دی ہے تاکہ وہ منفرد رائے پر کام کریں کیونکہ خود انہوں نے کشمیر کے بالیواڈ علاقے میں پہلے فرانسیسی تنور کی دکان کی بنیاد ہے۔لی ڈیلیسا ان کے دکان کا نام ہے – کشمیر نیوز بیریو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ، ”مجھے بیکری کی دنیا سے ہمیشہ لگاو تھا، میں کشمیر میں ہمیشہ کچھ منفرد کام شروع کرنا چاہتا تھا، چنانچہ کشمیر میں بہت زیادہ بیکری کی تہذیب ہے اور یہ جایے پیدائش بھی ہے، میں اور میری زوجہ نے کشمیر میں فرانسیسی تنور کی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا، یہ کشمیر میں واحد فرانسیسی تنور کی دکان ہے۔“ثاقب میر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے بیکری بنانے کی تعلیم اور اس سے منسلک نمونوں میں ڈپلومہ کیا ہے، انہوں نے فرانسیسی مرکز پیرس میں بیکری بنانے میں ڈپلومہ کیا ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ،” نوجوانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ محنت اور متحرک کا کوئی متبادل نہیں ہے، خاص کر کشمیر جہاں اکثر حالات پر تناو رہتے ہیں، ایسی جگہ سخت مرحلے ضرور آئیں گے مگر کامیابی صرف محنت اور متحرک ہونے میں ہے- گھر والوں کا سہارا نھی لازماً چاہیے جو مجھے بے شمار ملا۔“ان کا یہ با جرت کام اب تک کافی کامیاب رہا ہے کیونکہ عوام نے انھیں بھرپور تعاون کیا۔ ثاقب میر کی نوجوانوں کے لئے یہ نصیحت ہے کہ،” اپنے آپ کو مثبت ارتعاشات سے بھر پور رکھو کیونکہ کشمیر جیسی جگہ پر اس کی بہت ضرورت ہے۔“بے شک ایسے نوجوان اپنے کام کے میدان میں غالب ہی ں اور انھوں نے ثابت کر کے دکھایا کہ، ”محنت، متحرک ہونا اور ثابت قدمی کامیابی کی کنجی ہے © ©۔ © ©“ (کے این بی)

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.