مدرسہ نظام : کلی اصلاحات، سدھار کی ضرورت لازم ملزوم

بلال بشیر بٹ
مدرسہ تعلیم آج کی دنیا میں تعلیم کا ایک اہم جز ہے ۔مسلمان بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بنیادی اور رسمی تعلیم ہندوستان اور بیرون ممالک مدرسوں سے حاصل کرتے ہیں۔ پورے ملک کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں مدرسوں نے تعلیم فراہم کرنے کے کے حوالے سے ایک اہم کردار انجام دیا ہے مگر موجودہ دور میں محسوس ہو رہا ہے کہ مدرسہ نظام میںسدھار کی ضرورت ہے تاکہ اسے اور زیادہ موثر بنایا جائے اور مذہب کی صحیح تشریح، ترجمانی کو یقینی بنانے کے علاوہ معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ عالمی ہم آہنگی،خوشحالی کو بھی فروغ دیا جائے ۔
زمینی سطح پر بہت پہلے سے مدرسوں میںسدھار لانے کی آوازیں آ رہی ہیں تاکہ یہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا کردار انجام دے سکیں ۔ چاہے وادی کشمیر ہو یا ملک کے باقی حصے آوازیں زور دے رہی ہیں کہ کلی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے ۔
سادات اللہ خان اسلامک وایس(Islamic Voice) کے مدیر اور عالمی سطح کے نامور شخصیت نے اس ضمن میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،”مدرسہ نظام میں لازماً بہتری کی ضرورت ہے اور ان میں موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بدلاو لانا ہوگا مگر وہ ضروریات کے مطابق بدلاو اور سدھار لانے میں کسی حد تک خوف ذدہ ہیں۔ اگر انہوں نے سخت رویہ برقرار رکھا تو ہم متبادل کے طور پر وائبرینٹ کلامی کالجوں کے مطلق سوچیں گے جہاں مذہبی تعلیم، تحقیق اور صنعتیات کو ایک ہی چھت کے نیچے سکھایا جائے ۔ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ خواہ یہ مدرسہ تعلیم ہو یا کچھ اور، ہمیں بنیادی انسانی اقدار شامل کرنے ہونگے ۔“
یہاں تک کہ عام لوگ بھی زور دے رہے ہیں کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ مدرسہ تعلیمی نظام میں کافی بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔
گلزار احمد نامی ایک شہری کا کہنا ہے کہ،”ناپسندیدہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ریاست میں کتنے مدرسے موجود ہیں یا وقتاً فوقتاً اس سوال کا الجھن میں ڈال دینے والا جواب دیا گیا ہے ۔ مدرسہ تعلیمی نظام کو باقی عقائد اور نظریات کو برداشت کرنے کے حوالے سے اور زیادہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ کئی مواقع پر نفرت سے بھری تشریح اور نظریات کی وجہ سے بدنامی اٹھانی پڑتی ہے ۔ وسیع اور مقابلوں کے مطالبات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے جب ہم مدرسہ تعلیمی نظام میں بہتری اور سدھار کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔
اس دوران جنہوں نے قریب سے تحقیق کی ہے، انہوں نے پایا کہ مدرسہ تعلیمی نظام خود اندر سے بدلاو کی آواز دے رہا ہے ۔
مشتاق الحق سکندر جو وادی کشمیر سے ایک جواں مصنف، کارکن ہیں، حال ہی میں ان کی کتاب(Bridging the Divine) منظر عام پر آئی کا کہنا ہے کہ کہا کہ”سب سے پہلا اور اہم مسئلہ مدرسوں کا یہ ہے کہ یہاں ہمارے مدرسہ تعلیمی نظام میں شفافیت اور احتساب موجود نہیں ۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی کے نصاب میںسدھار کی ضرورت ہے – سبھی مرکزی مدرسے 17ویں اور 18ویں صدی کے فرسودہ تعلیمی کوائف ماڈلز، فن تعلیم اور کتابوں کے مطابق کام کر رہے ہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہے اور مدرسہ نظام کو قدامت پسند گ ±زرگاہوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے اور صحت مند دلائل کو جگہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے طلبہ و سائینسی شعبہ میں بھی اسے شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوں مدرسوں اور سکولوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کا، نصاب شامل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بہت کوشش کی گئی کہ مخالف تقسیم مروجہ تعلیمی نظام کے درمیان ایک رشتہ استوار کیا جائے جس میں بہت کم کامیابی ملی ہے۔“
زمینی نبض یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں مدرسہ تعلیمی نظام کی بہتری لازماً ہے اور اس کی گنجائش بھی موجود ہے۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.