ماہ رمضان سیز فائر سے امن و امان قائم ہونے کی امیدیں

سیز فائرکے اعلان کو ایک مثبت قدم کے بطور دیکھنا ہوگا/عوامی حلقے
سرینگر/ کشمیرنیوز بیورو/ مرکزی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ کی 16 تاریخ کو ایک اہم فیصلہ اور ریاستی وزیر اعلی کی اپیل کے سلسلے میں رمضان المبارک کی آمد پر سیز فائر بندی کے اعلان کیا گیا۔ مرکز کے اس فیصلے سے کشمیر میں یہ امید کی جارہی ہے کہ شاید اس سے یہاں امن و امان قائم ہونے میں مدد مل سکے گا۔ اگر چہ اس فیصلے کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہوا تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے یہ بات زور دیکر کئی گئی کہ ایک سیز فائر کے دوران جنگجوﺅں کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی تو اسکا بھر پور جواب دیا جائے۔ رمضان سیز فائرکے تعلق سے لوگوں کے تاثرات جاننے کےلئے کشمیر نیوز بیورو نے سماج کے مختلف افراد سے بات کی۔ جن میں طاہر سید پی ڈی پی کے یوتھ لیڈر اور وزیر اعلیٰ کے میڈیا صلاح کار قابل ذکر ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ امن و امان قائم کرنے کے لئے مرکز کی جانب سے یہ اقدام قابل داد ہے ۔ انہوں نے کہا یہاں پہلے سے ہی لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہے تاہم رمضان المبارک کے مہینے میں یہ اعلان ایک راحت ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مرکزی و ریاستی حکومتیں امن و امان کو قائم کرنے کےلئے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حزب اختلاف جماعت نیشنل کانفرنس کے یوتھ لیڈر سلمان علی ساگر سے جب اس تعلق سے کشمیر نیوز بیورو نے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سیز فائر کا اعلان ایک اچھا قدم ہے تاہم جب تک دوسری جانب سے بھی اس کا مثبت ردعمل نہیں ہوتا تب تک اس سے کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا ضرورت اس بات کی یہ کہ جنگجو تنظیموں کی جانب سے اگر سیز فائر ہوتا ہے تو کشمیر میں ہورہے قتل و غارت گیری کو روگا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا سرحدوں پر جاری کشیدگی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کی طرف سے اس اعلان سے قبل ایک منظم لائحہ عمل نہیں اپنا گیا۔ دریں اثناءکشمیر نیوز بیروں نے جب سیاسی تجزیہ کار الیاس احمد سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ جنگ اور خون ریزی سے مسئلے حل نہیں ہوتے اس لحاظ سے مرکز کی جانب سے کئے گئے سیز فائر کا اعلان ایک مثبت قدم کے بطور دیکھا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس اعلان سے لوگوں میں راحت دیکھنے کو ملی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو آگے لے لیکر ایک بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ سماجی وئب سائٹ فیس بک پر ایک شہری کا کہنا ہے کہ سیز فائر کا اعلان مزاحمتی قائدین اور نئی دلی کے درمیان ایک پل کا کام کرسکتی ہے جس کے ذریعے ایک بامعنی مذاکرات کاری کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ناگالینڈکے رطرز پر سیز فائر میں اگر توسیع کی جائے تو امن کے قائم ہونے کی بہت زیادہ امیدیں ہے۔ سماج کے مختلف طبقہ ہائی فکر کے لوگوں کا یہی ماننا ہے کہ اگر مرکز کی جانب سے سیز فائر کے اعلان کا جنگجو صفوں کی جانب سے بھی مثبت جواب آتا ہے تو ہی امن و امان کو قائم کرنے کےلئے سرکاری سطح پر اقدامات اٹھائیں جاسکتے ہے جس سے کشمیر میں دہائیوں سے جاری قتل و غارت گیری پر روک لگاہی جاسکتی ہے۔ (کے این بی)

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.