شیخ العالمؒ اور ان کی ہم آہنگی کی دعوت

کشمیر کے لوگوں نے اسلام کو اپنا مذہب ریشیوں کی پُر امن کوششوں سے تسلیم کیا
سرینگر/کشمیر نیوز بیورو/مشتاق الحق سکندر/وادی کشمیر سامی اور غیر سامی مذاہب اور تہذیب کی تفریح کرنے کے حوالے سے خوش قسمت رہی ہے ۔ وادی کے باشندے بر صغیر ہند میں قائم ہونے والے مزاہب، ہندو مزہب اور بودھ مزہب کے زیر اثر رہے- اسلام جو ایک اجنبی مزہب تھا، اس کا بھی کھلے ہاتھوں استقبال کیا گیا – کشمیر میں اسلام مسلم کٹر بادشاہ کے مذہب تبدیل کرانے سے نہیں پھیلا بلکہ بلکہ صوفی اور ریشی حضرات کی پر امن کوششوں اور محنت کی وجہ سے کشمیر کے لوگوں نے اسلام کو اپنا مذہب تسلیم کیا ۔ پچھلے عقاید ہندو مذہب اور بودھ مذہب کے پیروکار اب بھی جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں – صوفی بزرگ جو مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے جن میں سہروردی اور کبروی بھی شامل ہیں نے کشمیر کا دورہ کر کے اسلام کی دعوت کشمیر تک پہنچائیں مگر لسانی اور دیگر مشکلات کی وجہ سے عام لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے اسلام کی جو تعلیمات دی وہ سماج کے ایک مختصر علاقے تک محدود رہ گئی – ان کے مختصر دورے اور پھر یہاں ٹھرنے کی وجہ سے مزہب میں تبدیلی مختصر ہو کر رہ گئی ۔صوفی ازم جو عالمی امن کے لئے ایک راستہ ہے اور کشمیر جیسے پر تشدد علاقوں میں امن و امان بہال کرنے کے لیے لازم ملزوم ہے۔کشمیر میں اسلام اپنے آبا و اجداد کے طور طریقوں سے الگ نہیں ہو سکتا، خصوصاً جس طرح صوفی بزرگوں نے اسلام کی تعلیمات پیش کی ہیں -کشمیر میں اپنی آمد سے پہلے صوفی ازم یا تصوف سے باقی عقائد اور تہذیب سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے ہیں – کشمیر میں صوفی ازم نی اپنی ایک الگ پہچان اور روایات بنایی جسے ریشی ازم سے جانا جاتا ہے – صوفی ازم کی اپنی یہ الگ پہچان جسے ریشی ازم کہا جاتا ہے متاثر ہوئی اور ہندوازم اور بدھ ازم کی کچھ تعلیمات آگے پہنچائی حالانکہ یہ سبھی ریشی مسلمان تھے۔اسلام کی آمد سے پہلے بھی بھت سارے ریشی موجود تھے مگر استحکام اور مزبوتی کی نیک نامی کا سہرا جس شخص کو جاتا ہے وہ شیخ نورالدین نورانی یا نند ریش کو جاتا ہے جنہیں کشمیر میں زیادہ تر شیخ العالم کے نام سے جانا جاتا ہے- انہیں ریشی کو بنیاد مانا جاتا ہے اور ان کے زریعے سے بہت سے پر ارفان افراد متاثر ہوئے جیسے کہ شیخ حمزہ مخدومی، ریش میں صاحب، شمس فکیر سے لے کر آج تک ۔شیخ العالم کی کثیر جہتی شخصیت کے مختلف پہلو ان کی شاعری سے ظاہر ہو جاتے ہیں – انھوں نے آفاقی تعلکمات کو عام کرنے میں اپنی شاعری کا سہارا لیا، ان کی شاعری عام طور پر شروخس سے جانی جاتی ہے – انہوں نے جن معاملات میں دخل اندازی کی ہے، ان میں خدا تعالیٰ کی ذات، ماوراءسچ، پیغمبر اسلام کی زات، سماجی انصاف، ریشی بزرگ، عورت کی زات، انسانی تعلقات، کشمیر، مزہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے محبت، براہمن اور مولوی کی منافقت قابل ذکر ہے ۔ایسے تمام ریشی بزرگوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انسانیت سے محبت کو ترجیح دی ہے لہذا شیخ نورالدین نورانی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مطلق کہا ہے کہ، “ایک ہی ماں باپ کی اولار”-
ہندو اور مسلمان کب دویتواد کے درخت کو کاٹ ڈالیں گے،
کب خدا ان سے خوش ہوگا اور ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا،
ہم سب اس دنیا میں بھائیوں کی طرح آیے،
کوئی مکان میں رہتا ہے تو کوئی جھونپڑی میں،
اس کے باوجود ہم سب اس دنیا میں بھائیوں کی طرح آیے،
مگر اب ہم اجنبی اوت ایک دوسرے کے دشمن ہیں،
اے اللہ، اس سب پر روک کب لگے گی!
وہ آگے کہتے ہیں کہ،
ہم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں،
تو پھر کیوں یہ اختلاف،
ہندوو اور مسلم کو ایک خدا کی بندگی کرنی چاہیے،
ہم اس دنیا میں شراکت داروں کی طرح آیے،
ہمیں اپنی خوشی اور غم ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنے چاہیے-
شیخ العالم نے حقائق پر مبنی معاملات اور نا انصافی کی طرف آنکھیں بند کر کے نھیں دیکھا، انہوں نے مزہب کی بے حرمتی، نا انصافی، ذات پات کی فرق، غریبی کے خلاف ایک صلیبی جنگ چھیڑ دی – انہوں نے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات دی جن میں انصاف، برابری، محبت، انسانیت کی قدر، غریبوں کا خیال نمایاں ہیں – انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے درمیان فرق ختم کرنے کی کوشش کی :-
کول مو لگی رنگن تہ سنگن،
کول مو ہینگن لگنے آو-
تم فرقہ سازی اور وفاق سازی کے لیے نہیں آیے ہو،
تم نسلی برتری کے لیے نھیں آیے ہو-
ذات پات کے خلاف بولتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ :-
یتھ دنیاہس ذات ہاوتھ کیاہ میلیہ،
گسہ چاکھ اڈجن یلہ کھاکھ میلیہ-
اس دنیا کو ذات پات دکھانے سے کیا مل جایے گا،
جب مر کر خاک میں مل جاو گے تو تمہاری ہڈیوں کا سورما نکل جایے گا-
مزہب کا استحصال کرنے والوں کے مطلق شیخ العالم نے دیانتداری کے ساتھ ان کی مخالفت کی ہے خصوصاً ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کے پادری اور مولوی طبقے کا :-
ملہ چھوی خوشحال بدیہہ تیہ سالس،
شیخ گییے ملہس تیہ مششس متیہ-
پادری تحفہ اور دعوت پر خوش ہے،
شیخ دولت اور خواہش پرستی کے لیے آپے سے باہر ہے-
الستو بوزتھ ہیوتوکھ پتھی،
قالو بلا تتھ دوپوکھ نیے،
شامس کھیوان ماز کیوہو بتی،
براہمن لاگتھ باٹن نی کھینی-
خدا کی طرف سے اشارہ پاکر وہ دھم پھیر کر بیٹھے رہے،
اپنی خواہشات کا انہوں نے ساتھ نہیں چھوڑا،
وہ تو کھانا کھانے میں مصروف ہیں،
بظاہر یہ براہمن نظر آ رہے ہیں مگر غور کریں تو صفر-
مذہب کا استحصال آج بھی جاہل مولویوں اور لالچی براہمن کے ذریعے جاری ہے اگر چہ شیخ العالم نے اپنے الفاظ میں ان کا تعارف صدیوں پہلے دیا ہے- اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم پھر سے ان کی دی ہوئی تعلیمات کو، زندہ کریں جن کا کچھ مولویوں نے اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر استحصال کیا ہے- شیخ العالم نے نہ صرف مولویوں کی مخالفت کی ہے بلکہ کچھ جھوٹے ریشوں کی بھی جو ریشی ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔
جن موضوعات، مسائل اور معاملات پر شیخ العالم نے بات کی ہے، ان کا سامنا آج بھی بنی نوع انسان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ہے۔
ان کے الفاظ نصیحت اور جسابات سے بھرے ہوئے ہیں جن کی ضرورت آج کے انسان کو ہے، اس کے علاوہ ان کے الفاظ سے انسان کی روح کو سکون میسر ہوتا ہے ۔
ان کے الفاظ دنیا کی تنہائی کی طرف نہیں بلکہ خالق حقیقی کے ساتھ ملاقات اور جوڑنے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں –
عاشق سویہ یوس عاشقی ساتھ دزیہ،
سون زن پزلیہ پونن پانھہ،
عاشقی دودھ یسہ وانجیہ سانھہ،
سویہ ادیہ واتیہ لا مکان –
ایک سچا عاشق وہی ہے جو عاشقی میں فنا ہو،
وہ سونے کی طرح پگھلاو ¿ کے دوران چمکتا ہے،
جس کے دل میں عشق اپنی جگہ کر لے،
وہی اپنی منزل کی طرف پہنچ سکتا ہے –
شیخ نورالدین کی سیرت نے کشمیریوں کو کافی متاثر کیا ہے اور ان کی عالمی بھائی چارہ اور امن کی دعوت کی ضرورت آج کے پر آشوب دور میں خصوصاً اور امومن ہمیشہ ہے ۔
کشمیریت، قوت برداشت کی اقدار اور بھائی چارگی صوفی ازم سے ہی پایی گیی ہے اور آخر پر یہ کہ درد اور مسائل کے حل کے لیے ہمیں لازماً ان دونوں چیزوں کو بحال کرنا ہوگا تاکہ سیاہ دور کا خاتمہ ہو پایے۔(کے این بی)

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.