رمضان سیز فائر بندی ایک سنہری موقعہ تھا

جنید بٹ، کشمیر نیوز بیورو
سرینگر/ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جموں وکشمیر میں تاریخی رمضان سیز فائرکے علان کے بدولت وادی میں مائیں سکون سے سو رہی تھی ۔ رمضان سیز فایر کے رہتے وادی خصوصاً جنوبی کشمیر کے حالات میں خاصی بہتری دیکھنے کو ملی تھی۔تاہم کچھ عسکری تنظیموں کی جانب سے اسے کامیاب نہ بنائے جانے پر اس کی توسیع نہ کرنے کا اہم وجہ بتایا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایک غیر معمولی اقدام کے تحت16مئی کو مرکزی حکومت نے اچانک یکطرفہ رمضان سیز فائر کا اعلان کیا۔یہ اعلان مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سماجی رابط ویب سائٹ ٹویٹر پر کیا۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تمام سکیورٹی فورسز کو حکم دیا کہ وہ ماہ رمضان کے پیش نظر جموں و کشمیر میں کسی قسم کا آپریشن نہ کریں۔انہوں نے اپنے ٹویٹر پر کہا تھا کہ ”ہم نے مسلمانوں میں ماہ رمضان کے حوالے سے جو احترام ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے“۔انہوں نیکہا تھا ’بھارتی حکومت کو توقع ہے کہ تمام مسلمان حکومت کا ساتھ دیں گے‘۔اس سے قبل9مئی کو کل جماعتی اجلاس میں ریاستی حکومت کی جانب سے یکطر فہ جنگ بندی کرنے کی تجویز مرکزی حکومت کے سامنے رکھی تھی۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ رمضان ،عید اور سالانہ امر ناتھ یاترا کے دوران اگر جنگ بندی کا اعلان کیا جاتا ہے ،تو وہ اعتماد سازی کا بڑا اقدام ہوگا۔
سیز فائر بندی کا حالات کو قابو اور مذاکرات کے ذریعے مسایل کو حل کرنے کے لئے عالمی سطح پر بار ہا عمل میں لایا گیا۔ یہ سیز فائر بندی ہی تھی کہ جنوبی افریقہ میں تشدد کے خاتمے اور مصالحت کی طرف بڑھ کر تاریخی امن حاصل کیا گیا۔تاہم کشمیر میں سیز فائر بندی بھی کشمیر میں پُر آشوب حالات کا دورختم کرنے میں مثبت ثابت نہیں ہوسکی۔
سیز فائر سے پہلے مرکزی حکومت کی جانب سے کشمیر میں امن قائم کرنے کی کوشش میں مرکزی نمائندہ کو نامزد کیا گیا تاہم ابھی تک نمائندے کی جانب سے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکز کی طرف سے نمائندے کی نامزدگی اور سیز فائر بندی کے اعلان کو کشمیر میں کافی سراہنا کی گئی تاہم نتائج نہ نکلنا کافی تشویشناک ہے۔
روز مرہ کی بنیادوں پر ہورہے ہلاکتیں کو روکنے کےلئے رمضان سیز فائر کو ہتھیار کے بطور استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ عسکری جماعتوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کو سیز فائر کے معاملے کو زیر بحث لانا ہوگا۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.