بڑھتی خونریزی کی وجہ سے کشمیریوں کے دل رنجیدہ

اپنے عزیزوں کے بچھڑ جانے کا غم عمر بھر کے زخم کے مترادف
سرینگر/کشمیر نیوز بیورو /وادی میں آئے دن بڑھتی خونریزی پوری دنیا میں اجباروں کی سرخی اور تجزیہ کا مرکزی نقطہ بن چکا ہے ۔خون ریزی اور تشدد نے عام کشمیریوں کے دماغی سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی ان کو جزباتی سطحوں پر بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ اپنے عزیزوں کے بچھڑ جانے کا غم عمر بھر کے زخم کے مترادف ہے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ امن مثبت ذہنی رویہ کے لئے لازمی ہے جبکہ تشدد منفی سوچ کی وجہ ہے ۔ امن سماج کا قدرتی قائدہ ہے اور تشدد غیر قدرتی قائدہ۔ امن قدرتی قوانین کے مطابق ہے اور تشدد اس کے منافی ۔کشمیر میں زمینی نبض یہ بتا رہا ہے کہ خونریزی کے اس دیو کو ختم کرنے کے غرض سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے -کشمیر نیوز بیورو نے سماج کے مختلف تبقوں کے لوگوں سے بات کر کے خونریزی کے دیو کی وجہ سے سماج پر پڑھ رہے اثرات کو جاننے کی کوشش کی ۔نذیر احمد ملک، جو ایک نامور وکیل اور سیاسی کارکن ہیں نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ”خونریزی کی وجہ سے ہر سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، عزیزوں کے بچھڑنے کی وجہ سے سماج کے پورے ماحولیاتی نظام پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ہندوستان اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس خونریزی کے خاتمے کے لئے مثبت اور بمعنی مزاکرات کا آغاز کریں۔ وادی کشمیر کا پورا سماج متاثر ہو چکا ہے، پڑھے لکھے اور تجربہ کار نوجوان بسم ہو رہے ہیں ۔جس طرح سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے موجودہ حکومت کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ نوجوانوں کو پشت بہ دیوار کر رہی ہے، میں برابر اس سے مطفق ہوں- حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے اور سور سوسائٹی کے ساتھ ویچارمنتھن کرے تاکہ اس خون ریزی کو ختم کیا جا سکے۔کچھ کا ماننا ہے کہ اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں امن برپا کیا جا سکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں؟ افان یسوی جو کشمیر سے ایک نوجوان کارکن اور کالم نگار ہیں، نے کشمیر نیوز بیورو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،” بیگناہ لوگوں کو مختلف سیاسی یا مزہبی نظریہ رکھنے کی بنیاد پر قتل کر دینا غلط ہے – جب شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دہائیوں سے چلے آ رہے تنازعہ کو حل کر کے امن، خوشحالی اور باہمی اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں تو ہمارا خطہ اس کی تقلید کیوں نہیں کر سکتا ہے پر تشدد حادثات کا خاتمہ ہو سکے۔بندوق اور خونریزی نے کبھی مثبت اور با معنی حل فراہم نہیں کیا ہے- بلاتعطل اور بامعنی مزاکرات واحد راستہ ہے جس سے متعلقین مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔“ 6 اپریل 2018 کو ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس بات پر زور دیا کہ خونریزی ختم ہونی چاہیے- وزیر اعلیٰ نے ملک کی سیاسی قیادت سے درخواست کی تھی کہ وہ تنظیمی امتیازات کو ترک کر کے جموں و کشمیر کی درد بھری آوازیں سنیں اور ریاست کے لوگوں کو خونریزی سے نجات دلانے میں مدد کریں۔سعید الیاس جو ضلع گاندربل سے ایک سماجی کارکن ہیں، نے کشمیر نیوز بیریو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ”خونریزی کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے پر بہت بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں – نوجوانوں نسل جب خونریزی کے خلاف مزاحمت پر اتر آتی ہے تو سخت گیر بن جاتی ہے اور اس کی وجہ سے جو ہر جگہ درد پیدا ہوتا ہے تو خرابی کی وجہ بن جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے تعلیمی شعبہ اور باقی تمام شعبوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ تباہ کن ہوتے ہیں – نوجوانوں نسل کو صحیح، پرامن تریقوں اور نظریات کی طرف راہ دکھانی ہوگی۔ متعلقین کو اس خون ریزی کو ختم کرنے کے غرض سے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہیے کیونکہ خونریزی کسی مسلے کا حل نہیں – مسلم سماج نی خصوصاً پچھلی دہائیوں سے خونریزی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھایا ہے، مزاکرات اور قلم سماج میں امن و امان لانے کے لیے واحد راستہ ہے – ایک عام کشمیری زمینی سطح پر اس خونریزی کی وجہ سے کافی پریشان ہے“۔ہوشمند آوازیں اس بات پر متفقہ طور زور دے رہی ہیں کہ وادی میں خونریزی کو ختم کرنا ہوگا تاکہ پھر سے ایک بار امن، خوشحالی واپس لوٹ کر آئے ۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.