انٹرویو : مدارس کی اصلاحات وقت کا تقاضا

17 فروری 2018 / کشمیر نیوز بیورو/مشتاق الحق احمد سکندر وادی کے معروف مصنف، محقق اورسماجی کارکن ہیں۔وہ ایک سماجی بہبود تنظیم ’ سول سوسائٹی فار جسٹس اینڈڈیولپمنٹ‘کے کنوین ¿ربھی ہیں۔کشمیر نیوز بیورو کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر رمیض مخدومی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے مدارس کو ایک نئی جہت دینے اور ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کے حوالے کئی اہم نکات زیر بحث لائے۔
پیش ہیں کچھ اہم اقتباسات:
سوال: آپ کو مدارس کی اصلاحات کے حوالے کتاب لکھنے میں کون سے عوامل کار فرما رہے ہیں؟
مشتاق الحق سکندر: مدارس چونکہ اسلامی تعلیمات کے لئے اہم مراکز ہیں اسلئے یہ میرے لئے دلچسپی کا مظہر رہے ہیں۔علم و آگہی پھیلانے میں ان مدارس کا کافی اہم رول رہا ہے۔مسلم دنیا پر غیروں کے تسلط کی وجہ سے مذہب کے بھی حصے بخرے کردئے گئے اور مختلف مسلکوں اور فرقوں میں اسے بانٹ دیا گیا۔حالانکہ اب ہم غیروں کے اس تسلط سے آزاد ہوئے ہیں لیکن فرقہ بندیوں میں اب بھی بٹے ہوئے ہیں۔اس مذہبی تقسیم کو کم کرنے کیلئے کافی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ابھی اس حوالے اتنی کامیابی نہیں ملی ہے۔
ہندوستان کی قدیم و عظیم دانشگاہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی نے سابق وائس چانسلرلیفٹننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کی سربراہی میں مدارس کی اصلاح کے حوالے مدرسوں کے طالبعلموں کیلئے ایک بنیادی کورس کا آغازکیا ہے۔یہ کورس مسلمانوں میں فرقہ بندی کی تفریق کو ختم کرنے کیلئے شروع کیا گیا ہے۔ اس یک سالہ کورس سے مدارس کے طالبعلم انگریزی، سوشل سائنس اور کمپیوٹرکے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں۔اس بنیادی کورس کے اختتام پر طالبعلموں کو 10+2کے مساوی سرٹفکیٹ سے نوازا جاتا ہے جو انہیں دیگر سوشل سائنسزمضامین کے علاوہ قانون اور صحافت کے ڈگری کورسوں میں داخلہ لینے کے اہل بناتا ہے۔اس کورس کے موجودہ ڈائریکٹر،مسلم دانشوراور مصنف ڈاکٹر رشید شاز نے مجھے اس کورس کے اثرات کے حوالے تحقیق کرنے کی دعوت دی اور اس باپت یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے کہا کہ مجموعی طور پر اس کورس کو روایتی مدارس کے سکالر اور مسلمانوں کے تعلیمی ادارے کس نظرئے سے دیکھتے ہیں؟ اسی پیرائے میں تحقیق پر مبنی میری کتاب ” Bridging the Divide: Call of a New Dawn ” © © منظر عام پر آئی ہے۔اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحقیق مکمل کرنے میں مجھے ایک سال سے زیادہ وقت لگ گیا۔اس تحقیق کو انجام تک لانے کے لئے مجھے CEPECAMIشعبے کے علاوہ پروفیسر رشید شاذ کا ذاتی تعاون بھی حاصل رہا۔
سوال: یہ کتاب تحریر کرنے میں آپ نے کونسا طریقہ کار اپنایاہے؟
مشتاق الحق سکندر:اس کتاب کو تحریر کرنے کے لئے میں نے کئی تحقیقی نکات کو لے کر سوالنامہ تحریر کیا اور اسی کے جوابات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔
سوال: آپ ہمیں مدرسوں میں فی الفور ضروری اصلاحات کے حوالے کچھ بتایئے؟
مشتاق الحق سکندر:مدارس کی کلہم طریقے سے اصلاح کی ضرورت ہے۔اس وقت تین طریقوں کے اصلاحات سب سے پہلے کرنی ہیں۔مدرسوں کا بنیادی نصاب بدلنے کی از حد ضرورت ہے اور اسی کے ساتھ انتظامیہ کی تبدیلی بھی لازمی ہے۔ان مدارس کی تعمیر کے بعد انتظامیہ ان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اپنی ذاتی پراپرٹی جان کر ان کو اپنے بچوں کو اس کا وارث بناتے ہیں۔یہ سلسلہ بلکل ختم ہونا چاہئے۔دوم یہ کہ مغلوں کے وقت کا نصاب درس نظامی کو مکمل طور ان مدارس سے نکالنے کی ضرورت ہے۔اسی صورت میں طالبعلموں کے اذہان بھی منثبت سوچ و اپروچ کی طرف بڑھیں گے۔مدارس میں مسلکوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اپنے مسلک کو بچانے اور اس کی ترویج ہی ان مدارس کی انتظامیہ کا بنیادی مقصد ہوتا ہے ۔اس صورتحال کو جڑ سے ہی ختم کرنا ہے تاکہ ان مدارس میں پڑھنے والے بچے موجودہ دور کے تعلیمی طور طریقوں سے پوری طرح بہرہ ور ہوجائیں۔ان مدارس کے اساتزہ صاحبان بھی موجودہ دور کے علمی تقاضوں کے عین مطابق ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے اہل ہونے چاہئیں۔
سوال: آپ کی  کتاب کس موضوع پر مبنی ہے؟
مشتاق الحق سکندر:اس کتاب میں مدارس اور ان کا نظام زیر بحث لایا گیا ہے۔انگریزوں کے بعد بر صغیر میں درسگاہوں کی صورتحال اور خصوصاً ان مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب زیادہ زیر بحث لایا گیا ہے۔اور ان مدارس میں بنیادی کورس کس طرح عملایا جاسکتا ہے۔ان مدارس کے طالب علموں کی زہنی اُپج کس طرح بدلے گی کہ وہ موجودہ دور کے تعلیمی نصاب کے ہم آہنگ ہوجائیں۔اس کتاب میں اہم نکات کس طرح پیش کئے گئے ہیں اور طالبعلموں کی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے کیا کیا طریقہ کار پیش کئے ہیں ان سب کا تنقیدی پہلو کتاب کا قاری ہی بہتر طور سامنے لاسکتا ہے۔
سوال: مدارس میں موجودہ تعلیمی نصاب اور طریقہ کار کو عملانے کو آپ کتنی اہمیت دیتے ہیں؟
مشتاق الحق سکندر:مدارس میں جدید تعلیمی نظام کے تقاضوں کے مطابق ہی طالبعلموں کو سائنس،انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیمات دی جانی چاہئے۔اگر دقیانوسی طریقہ کار ہی اپنایا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ان مدارس کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہوگا اور یہ سب ان مدارس کی انتظامیہ اور اساتذہ کو زیر غور رکھنی چاہئے کیونکہ اگر صورتحال یہی رہی تو ان اساتذہ کا مستقبل بھی اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔فقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی رہنمائی لازمی ہے۔
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس کو صرف وعظ و تبلیغ تک ہی محدود نہیں رکھنا ہے ۔اسلام معاشرے کی اصلاح پر بھی زور دیتا ہے اور معاشرے کو سدھارنے کے لئے مدرسوں سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔اس وقت سارے عالم میں اسلام کے خلاف ایک منظم منفی پروپگنڈہ ہورہا ہے۔ہمیں اس کے خلاف اپنی علمی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔صرف خاص مسلک کی پیروی کرنے اور اس کی ترویج کرنے سے اسلامی شعایر محفوظ نہیں ہیں ۔
سوال: کچھ میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ مدرسوں میں شدت پسندی کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، آپکی کیا رائے ہے ؟
مشتاق الحق سکندر:ہاں کچھ مدارس میں منفی نقطہ نظر کو ترویج دینے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ اسلام شدت پسندی کا قائل نہیں ہے۔لیکن یہ شدت پسندی مسلمانوں کے آپسی گروپوں میں ہی پنپ رہی ہے اور اس سے دوسرے مزاہب کے لوگ اثر انداز نہیں ہوتے ہیں۔اب اس شدت پسندی کا قلع قمع کرنےکے لئے کچھ تدابیر ہورہی ہیںاور امید ہے کہ مثبت سوچ اور لائحہ عمل ہی سامنے آجائے۔

انگریزی میں اس انٹریو کو پڑھنے کےلئے یہاں کلک کریں
http://kashmirnewsbureau.com/2018/02/11/dire-need-of-introducing-modern-fields-of-education-in-madrasas/

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.