بھاری بھرکم بستہ: جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے ریاستی سرکار کو واضح پالیسی وضع کرنے کی ہدایت

سرینگر ؍ کشمیر نیوز بیورو ؍ موجودہ دور میں نئی نسل تعلیم حاصل کرنے کیلئے نہایت ہی دلچسپی اور لگن سے کام لے رہی ہے۔تعلیمی نصاب میں بھی مختلف تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔درس و تدریس کی کتابوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ لیکن کتابوں کا یہ سارا بوجھ کمسن طالبعلموں کے نازک کاندھوں پر لادھ دیا گیا۔ان کمسن طالب علموں کو راحت پہنچانے کے لئے جموں و کشمیر کے ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں ریاستی سرکار کو ایک واضح پالیسی اختیار کرنے کی ھدایت دی ہے۔کشمیر نیوز بیورو کے مطابق بدرالدجیٰ کی طرف سے ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست پر عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی سرکار کو تین مہینوں کے اندر اس حوالے اپنی پالیسی واضح کرنے کے لئے کہا ہے۔جسٹس راما لنگم سُدھاکر اور جسٹس ایم کے ہانجورہ پر مبنی ریاستی ہائی کورٹ کے ڈبل بنچ نے کشمیر یونیورسٹی کے ایک طالب علم بدرالدجیٰ کی طرف سے دائر کردہ مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سرکار کو کمسن طالب علموں کے کاندھوں پر بھاری کتابوں کے بستے کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اور واضح پالیسی اختیار کرنے کے لئے کہا ہے۔مفاد عامہ کی یہ رٹ درخواست ۲۰۱۶ ء میں دائر کی گئی تھی جس کے تحت سرکار نے اپنے کونسل اے ایم میر کے ذریعے بھاری سکول بستوں کے حوالے اپنی پالیسی بیان کی تھی اور اس سلسلے میں ماہرین کی ایک کمیٹی کو دلی بھیجنے کے لئے بھی کہا گیا تھاتاکہ اس حوالے ایک بہتر پالیسی وضع کی جائے۔بدرالدجیٰ نے ۲۰۱۷ء میں عدالت میں سرکار کے خلاف رٹ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ سکول منتظمین اور کتب فروشوں کے درمیا ن کتابوں کی زیادہ سے زیادہ بکری کیلئے باضابطہ اور خفیہ معاہدہ طے ہے اور جن کتابوں کا بوجھ ننھے بچوں کے نازک کاندھوں پر پڑتا ہے۔اب عدالت نے سرکار کواس حوالے ایک واضح پالیسی اختیار کرنے کیلئے کہا ہے اور اس مسئلے کو تین مہینوں کے اندر حل کرنے کیلئے ہدائت دیتے ہوئے کیس کو بند کردیا ہے۔کشمیر نیوز بیور سے بات کرتے ہوئے بدرالدجی نے کہا کہ میں اس معاملے میں سرکار کے سرد روئے سے کافی مایوس ہوں۔انہوں نے کہا کہ بھاری بھرکم سکول بیگ اُٹھاتے ہوئے کمسن بچے نہایت ہی تکلیف محسوس کرتے ہیں اور کئی بچوں کی گردنوں ،پیٹھ اور شانوں پر بھاری بستوں کی وجہ سے نشانات پڑگئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کئی بچے تو اتنے بھاری سکول بیگ اُٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔لیکن کتابوں کے بغیر سکول یا ٹیوشن پر جا نہیں سکتے۔والدین بھی اس حوالے شش و پنج اور پریشان رہتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کی صحت کے حوالے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ماہر استاد منظورسلطان کا کہنا ہے کہ موجودہ سائنسی اور تکنیکی زمانے میں بھی اس طریقے سے تعلیم و تربیت دینا محیرالعقول معاملہ ہے۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.