آنکھوں کی بینائی سے محروم بالغ اولادکی پرورش ماں کے ضعیف کاندھوں پر

سرینگر کشمیر نیوز بیورو انسانی فطرت ہے کہ وہ ماضی کو فراموش کرکے حال میں عملی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کومحفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسی طرح ہروالدین اپنی اولاد کو پال پوس کراس آرزو میں اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے لے جاتا ہے کہ عمر کے آخری ایام میں اس کی اولاد اسکی دیکھ ریکھ کرکے اس کے جینے کی تمنا کو زندہ رکھے گی۔والدین کی یہ بھی آرزو ہوتی ہے کہ ان کی اولاد صحت مند و توانا ہوتاکہ وہ بھی زندگی کی ڈگر پراپنے کارواں کو بہ احسن و خوبی آگے لے جا سکیں ۔اس سارے عمل میں والدین اپنے بچوں کے لئے کوئی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔لیکن کسی وقت مقدر کوئی اور کھیل کھیلتا ہے۔
ضلع اننت ناگ کے سندھو گاو ¿ں کی پچتھر سالہ موختی بیگم کو بھی مقدر نے زندگی کے ایک عجیب دوراہے پر کھڑا کردیا ہے کیونکہ اس کے سامنے اس کی دو بالغ اولاد آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں ۔وہ اپنی چھیالیس سالہ بیٹی حاجرہ بانو اور چھتیس سال کے بیٹے محمد شعبان کو اپنے سامنے دیکھ رہی ہے مگر یہ اولاد اپنی ماں کو دیکھنے کی طاقت سے محروم ہیں ۔یہ منظر گویا موختی بیگم کےلئے کسی قیامت سے کم نہیں۔اور آنکھوں کی روشنی سے محروم ان بچوں کی پرورش و نگہداشت کرنااس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف تو ہے مگروہ ان کٹھن آزمائشوں سے بہادری کے ساتھ نبرد آزما ہے۔
اننت ناگ قصبے سے تین کلو میٹر کے فاصلے پرسندھو گاﺅں کی رہنے والی موختی بیگم یوں تو ایک عام سی بزرگ عورت دکھائی دیتی ہے مگراس کے ساتھ بات کرنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک پُر فکر اور سنجیدہ عورت ہے۔وہ اُس وقت کو آبدیدہ آنکھوں سے یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ خوشی کا لمحہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکتی جب پہلی بار میری گود میں ایک ننھی سی بچی آئی۔لیکن حاجرہ کو جنم دینے کی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی کیونکہ کچھ وقت کے بعد ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری بیٹی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے۔میں اور میرا خاوند سخت دلبرداشتہ ہوئے۔ہماری اقتصادی حالت خراب تھی جو ہمیں اس کا علاج کرنے میں مانع آئی۔ہم نے اسے اپنا مقدر جان کر حاجرہ کی پرورش و نگہداشت بہ احسن و خوبی انجام دی۔موختی بیگم کا کہنا ہے کہ جب میں دوسری بار حاملہ رہی تو ہم میاں بیوی خوشی سے پھولے نہ سمائے اور ہم رات دن ایک صحت مند بچے کیلئے دعائیں کرتے رہے۔اور جب ایک بیٹا پیدا ہوا تو ہم نے راحت کی سانس لی۔ہم اس یقین میں خوشی محسوس کر رہے تھے کہ اب ہمارے بڑھاپے کا سہارا آگیااور یہ اپنی اندھی بہن کا بھی خیال رکھے گا۔لیکن ہماری ان خوشیوں کی عمر نہایت ہی کم نکلی کیونکہ کچھ ہی سال بعد ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہمارا بیٹا نہ صرف آنکھوں کی روشنی سے محروم ہے بلکہ یہ اچھی طرح چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہے۔ہم پر تو گویا غموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔میں رونے بلکنے کے سوا کچھ اور نہ کرسکی۔میرے خاوند نے ہمت نہیں ہاری اور وہ محنت و مشقت کرکے کماتا رہا اور اس بیٹے کے علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن شومئی قسمت کہ زندگی نے میرے خاوند کے ساتھ وفا نہیں کی اور جب ہمارے بچوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو موت نے میرے خاوند کو اپنی آغوش میں لے لیا۔آمدنی کا کوئی سہارا نہیں تھا تو مدد کے لئے مقامی سرکاری انتظامیہ کے پاس چلی گئی مگر امدادکے سارے دروازے بند کردئے گئے۔کسی نے میری مدد نہیں کی۔بچوں کا پیٹ پالنے اور ان کو پروان چڑھانے کےلئے میں نے کافی محنت کی۔مجھے کافی دقتوں اور مشکلات کا سامنا کرناپڑا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔میں روز یہ سوچ کر تل تل مرتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ کون ان کی نگہداشت کرے گا؟ کیا وہ بھوک سے تو نہیں مرجائیں گے؟ کیا ان میں خود زندہ رہنے کی ہمت ہے؟ ان خیالات سے میری راتوں کی نیند اُڑگئی ہے۔ اپنی کمائی سے کچھ روپے بچت کرکے میں نے گاﺅں میں ایک دکان خرید لی تھی مگر بڑھاپا ہونے کی وجہ سے میں اسکو چلا نہ سکی۔
موختی بیگم کا بیٹا اس دکان پر بیٹھتا تھا مگر آنکھوں کی روشنی نہ ہونے اور ٹانگوں میں کمزوری ہونے کی وجہ سے وہ اس دکان کو چلانے سے قاصر ہے۔محمد شعبان کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر میں سارا دن بیٹھ کراپنی قسمت کو کوستا بھی نہیں ہوں۔میں اپنی ماں اور بہن سے بہت پیار کرتا ہوں،مجھے ان کی پرورش کا خیال رہتا ہے،مگر مین کسی کی مدد کے لئے انتظار بھی نہیں کر سکتا۔
کشمیر نیوز بیورو کی ٹیم کو گاﺅں کے کئی افراد نے یہ درخواست کی کہ اس کنبے کی مالی مدد کرنے کے لئے سرکاری انتظامیہ سے اپیل کی جائے۔غلام حسن گنائی نے اس حوالے کہا کہ ہم سے جو بن پاتا ہے ،اس کنبے کی مدد کرتے ہیں مگر ہم خود بھی صاحب ثروت نہیں ہیں۔سرکاری انتظامیہ سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس کنبے کی مالی مدد کی جائے تاکہ یہ بھی اپنی زندگی کی ناﺅ کوآگے لے جا سکیں۔

Comments are closed, but trackbacks and pingbacks are open.